رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ
رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ملک کی سیاسی صورت حال خاصی پیچیدہ ہے اور سیاسی فضا میں مختلف نوعیت کی چہ مگوئیاں، افواہیں اور خیال آرائیاں گردش کر رہی ہیں۔ کہیں کہا جا رہا ہے کہ قومی حکومت بن سکتی ہے، کوئی اب بھی ٹیکنو کریٹ سیٹ اپ کی بات کر رہا ہے۔کوئی نئے این آر او کی سرگوشی کر رہا ہے۔ ادھر برسراقتدار مسلم لیگ (ن) کی قیادت سعودی عرب میں موجود ہے۔ پہلے میاں شہباز شریف گئے اور بعد میں میاں نواز شریف وہاں پہنچے، اس حوالے سے پاکستان میں بہت کچھ کہا جا رہا ہے۔ وہاں کیا ہو رہا ہے، اس حوالے سے کوئی مصدقہ اطلاع نہیں ہے لیکن پاکستان میں تجزیہ نگار اور اپوزیشن کے سیاستدان مختلف قسم کے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان تو کہہ رہے ہیں کہ اگر ملک میں کوئی نیا این آر او ہوا تو اس کے خلاف وہ سڑکوں پر آئیں گے۔ ذرائع کے مطابق، شریف برادران کی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کا امکان ہے۔ شہباز شریف نے مدینہ میں روضہ رسولؐ پر حاضری دی۔ وہ مکہ مکرمہ بھی پہنچے اور عمرہ کی ادائیگی کے بعد ریاض چلے گئے۔ خواجہ سعد رفیق، آصف کرمانی، پرویز ملک اور ساجد میر بھی سعودی عرب میں موجود ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف، ترکی کے وزیر اعظم بن علی یلدرم اور جمعیت اہلحدیث کے سینٹر ساجد میر کی مشترکہ کاوشوں کے باعث اہم ملاقاتوں کا شیدول طے پایا ہے۔
این آر او ہو گا یا نہیں تاہم شریف برادران نے سر توڑ کوششیں شروع کر دی ہیں۔ ذرائع کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف نے جمعہ کو لاہور میں بہت ہی مصروف دن گزارا، انہوں نے پارٹی کے چیئرمین راجہ ظفر الحق، خواجہ آصف سمیت اہم رہنمائوں سے ٹیلی فونک رابطہ بھی کیا، معلوما ت کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے ترکی کے وزیر اعظم بن علی یلدم سے سپیشل مدد لیکر سعودی حکام سے نواز شریف کی ملاقاتوں کا ایک شیڈول مرتب کیا، دوسری جانب مسلم لیگ کی اتحادی جماعت جمعیت اہلحدیث کے سینٹر ساجد میر نے بھی متعدد سعودی رہنمائوں سے ملاقاتیں کی ہیں، ساجد میر کے بارے بتایا جا رہا ہے کہ وہ بھی چند دن قبل سعودیہ گئے تھے، جنہیں خصوصی ٹاسک دیا گیا تھا۔ ملک کے سیاسی حلقوں میں یہ بات بڑی تیزی سے گردش کر رہی ہے کہ نواز شریف نے ایک بار پھر دوسری مرتبہ این آر او لینے کے لیے سعودی حکام سے مدد لی ہے، اس حوالے سے نواز شریف کی مدد کے لیے سب سے پہلے ترکی میدان میں آیا ہے، بتایا جا رہا ہے کہ نواز شریف نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ سیاست کے پردہ سے غائب ہونے کو تیار ہیں، مگر اس حوالے سے انکی صاحبزادی مریم نواز کو سیاست میں آنے کی اجازت دی جائے۔ مختصر سی درخواست لیکر شہباز شریف، ساجد میر سعودی عرب گئے ہیں۔
ذرائع نے یہ بھی انکشاف کیا کہ مسلم لیگ نون کے صدر نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ میں مفاہمت کروانے میں پس پردہ کردار سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بھی ادا کیا ہے، حالانکہ ان کے نواز شریف سے سخت اختلافات ہیں، مگر پارٹی کو بچانے کے لئے وہ خاموشی سے شہباز شریف کے کہنے پر یہ کردار ادا کر رہے ہیں۔ ذرائع نے مزید انکشاف کیا کہ ملک کی موجودہ سیاسی و سیکیورٹی کی صورت حال کے تناظر میں اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہتی کہ کسی قسم کی احتجاجی تحریک کسی بھی اہم ادارے کے خلاف چلے، اس لئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے شیڈول سے ہٹ کر گزشتہ دنوں سعودی عرب کا دورہ بھی کیا تھا، جبکہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے ساتھ بھی وہ سعودی عرب گئے تھے، ذرائع نے مزید انکشاف کیا کہ قومی سلامتی کے مشیر ناصر جنجوعہ نے نواز شریف سے پانچ گھنٹے کی جو ملاقات کی تھی، وہ بھی اس حوالے سے ہی تھی اور نواز شریف کو ان خطرات سے بھی آگاہ کیا گیا، جو کہ اس وقت قومی سلامتی کے لئے اہم ہیں اور اس ملاقات کی ہدایت وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ دونوں نے دی تھی۔
سعودی عرب اس ساری صورت حال میں نون لیگ کی مرکزی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک ضامن کا کردار ادا کرے گا، جبکہ نواز شریف اعلٰی عدلیہ کے خلاف کوئی تحریک نہیں چلائیں گے، عسکری اداروں کے خلاف کوئی سخت بیان بازی نہیں کی جائے گی، جبکہ نواز شریف کے خلاف جو مقدمات ہیں انھیں اس میں انصاف فراہم کیا جائے گا اور کوئی امتیازی سلوک ان کے ساتھ نہیں ہوگا، نون لیگ کو عام نتخابات میں برابری کا میدان ملے گا، جبکہ کامیابی کی صورت میں شہباز شریف وزیرا عظم ہونگے اور نواز شریف ایسا کوئی اقدام نہیں کرینگے، جس سے اداروں کے درمیان تصادم ہو جبکہ اسٹیبلشمنٹ اپنا کردار جمہوریت کے فروغ کے لئے ادا کرے گی اور کسی بھی سیاسی جماعت کےسر پر کوئی خصوصی ہاتھ نہیں رکھا جائے گا۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ سعودی عرب روانگی کی وجہ سے نواز شریف نے اتوار کو کوٹ مومن میں ہونے والا جلسہ بھی ملتوی کر دیا ہے، جبکہ جو نواز شریف کے موقف کے حامی ہیں وہ پہلے ہی سعودی عرب پہنچ گئے ہیں اور ترکی بھی سعودی عرب کے ساتھ مل کر اس ساری صورت حال میں ایک بنیادی کردار ادا کر رہا ہے۔
اسی طرح سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ نون کے سربراہ میاں نواز شریف کے متعلق برطانوی جریدے نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی عرب میں انکے معاملات طے پانے کا امکان ہے، وہ ایک بار پھر جلاوطنی اختیار کر سکتے ہیں اور سیاست سے کنارہ بھی کر سکتے ہیں۔ جریدےنے یہ بھی لکھا ہے کہ نواز شریف سیاست چھوڑنے کی حامی بھر چکے ہیں اور نواز شریف پر دباؤ ڈال کر شہباز شریف کو جانشین نامزد کیا گیا ہے اور جلاوطنی پر نواز شریف کی مقدمات سے جان چھوٹ سکتی ہے، سعودی ڈیل کے تحت نواز شریف کا کیسز سے چھٹکارا ممکن ہے۔ برطانوی اخبار کے دعوے پر مریم نواز کا ردعمل بھی سامنے آیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جلا وطنیاں اب عوام کے منتخب نمائندوں کا مقدر نہیں ہیں، جلا وطنی اب آمروں اور جمہوریت پر شب خون مارنے والوں کا مقدر ہو گی۔ اسی طرح برطانوی جریدے کے دعوے کے ردعمل میں مسلم لیگ نون کے ترجمان سینیٹر پرویز رشید نے دنیا نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ برطانوی جریدہ زمینی حقائق سے یکسر نابلد ہے، لگتا ہے کہ شائع ہونیوالا مضمون کسی کی خواہش ہے، نواز شریف کی جلا وطنی کسی کی خام خیالی ہے جس پر ہنسا ہی جا سکتا ہے۔
پرویز رشید نے مزید کہا کہ پہلے بھی اٹک قلعہ سے جہاز پر انہیں زبردستی باہر بھیجوایا گیا تھا، 2007ء میں سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود انہیں ملک میں آنے سے روکا گیا، تب سے توہین عدالت کا کیس آج بھی انصاف کے ایوانوں میں انصاف کا طالب ہے، نون لیگ کی قیادت اپنی زمین پر رہنے اور یہاں مرنے کو ترجیح دیگی، نواز شریف کی مقبولیت نے بہت سی قوتوں کو پریشان کر رکھا ہے، ایسی خبریں اور تجزیے نواز شریف کو مائنس نہیں کر سکتے۔ سابق وزیراعظم کی سعودی عرب روانگی کو ملکی اور علاقائی صورتحال کے حوالے سے اہم قرار دیا جا رہا ہے، وہ ایسی صورتحال میں سعودی عرب جا رہے ہیں جب ان کے وزیر اعلیٰ پنجاب شہبازشریف کو دو روز قبل سعودی حکومت نے اپنا خصوصی جہاز بھیج کر بلایا، ان کی سعودی عرب میں اعلیٰ حکام سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ نواز شریف کی سعودی عرب روانگی کے متعلق صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے کہا تھا کہ انکا دورہ عالمی حالات اور خطے کی صورتحال پر غور و فکر کرنے کیلئے ہے، کسی این آر او یا ڈیل سے اسکا تعلق نہیں۔ یہ قیاس آرائیاں بھی جاری ہیں کہ سابق وزیراعظم نوازشریف کی آئندہ 48 گھنٹے میں سعودی عرب میں سعودی ذمہ داروں اور سعودی عرب میں موجود ترکی کے وزیراعظم سے ملاقاتوں کا امکان ہے۔ انکی سعودی عرب روانگی کو ملکی اور علاقائی صورتحال کے حوالے سے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
خیال رہے کہ سعودی عرب روانگی سے قبل سابق وزیر اعظم نواز شریف سے قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ نے جاتی امرا میں 5 گھنٹے ملاقات کی، جس میں اہم امور، دہشت گردی، ملکی سلامتی اور خطے کی صورتحال پر بات چیت کی گئی۔ نواز شریف نے کہا خطے میں امن کیلئے افغانستان میں امن اور تمام ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات ناگزیر ہیں، بطور وزیر اعظم ہمیشہ امن، محبت اور بھائی چارے کی بات کی، ملکوں میں لڑائیوں سے مسائل حل نہیں پیدا ہوتے ہیں، مذاکرات کے ذریعے ان کاحل نکالا جانا چاہیے، ہمیشہ کوشش کی کہ افغانستان سمیت تمام ہمسایہ ممالک کیساتھ تعلقات کو بہتر بنایا جائے تاکہ خطے میں قیام امن کی کوششوں کو کامیابی حاصل ہو سکے، خطے میں ہماری پالیسی جیو اور جینے دو پر مبنی ہے، ملک میں قیام امن کیلئے حکومت فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور بچہ بچہ ملک کے دفاع کیلئے تیار ہے۔ ناصر خان جنجوعہ نے کہا ملکی سلامتی کے تحفظ کیلئے تمام ادارے متحد ہیں، پاکستان سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوسکتا، دہشت گردی کے نتیجے میں پاکستان نے سب سے زیادہ قربانیاں دیں، دنیا کو ہماری قربانیوں کو تسلیم کرنا ہوگا، سرحد پار سے دہشت گردوں کی مدد کسی صورت برداشت نہیں کرینگے، آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی۔
جبکہ عمران خان کہتے ہیں کہ نوازشریف کی تحریک کا انتظار کر رہا تھا، لیکن دونوں بھائی تحریک چلانے سعودی عرب چلے گئے، سعودی عرب میں حسین شریف، لندن میں حسن شریف فرنٹ مین ہیں، امریکا میں سعید شیخ اور قطر میں سیف الرحمان فرنٹ مین ہیں، قوم کا پیسہ دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر ملک سے باہر بھیجا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب میں جو بھی ہو رہا ہے، وہ غلط ہے، سانحہ ماڈل ٹاؤن سیاسی نہیں بلکہ انسانیت کا مسئلہ ہے، سانحہ پر سب کو طاہر القادری کا ساتھ دینا چاہیے۔ اس کا مطلب ہے اگر اسٹیبلشمنٹ شریف برادران کو رام کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اپوزیشن جماعتوں کو بھی کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پہ راضی کیا جائیگا۔ شہباز شریف کی سعودی عرب کا دورہ نواز شریف کی روانگی کی خبریں اور ناصر جنجوعہ کی نواز شریف سے پانچ گھٹنے کی ملاقات کو اگر ملا کر دیکھا جائے، تو طاہر القادری آصف زرداری اورعمران خان کا گٹھ جوڑ بھی سمجھ آجاتا ہے۔
اگر نواز شریف نے اپنی پارٹی اپنے بھائی اور اپنے دوستوں کی بات نہ مانی تو دما د م مست قلندر کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔ پھر طاہر القادری کو بھر پور گرین سگنل مل جائے گا۔ وہ میدان میں آجائیں گے۔ لاہور مال روڈ پر دھرنا ہو جائے گا۔ شہباز شریف سے استعفیٰ کی باز گشت سنائی دے گی۔ ایسے میں تصادم ہو گا۔ یہ تصادم جمہوریت کا بستر گول بھی کر سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان تو بہت مقبول ہیں وہ یہ کیوں کر رہے ہیں۔ دراصل عمران خان کے ذہن میں ایک بات پھنس گئی ہے کہ اگر شہباز شریف آؤٹ نہیں ہو تے تو وہ وزیر اعظم نہیں بن سکتے۔ اس لیے وہ آخری حد تک جانا چاہتے ہیں۔ آصف زرداری کی گیم سادہ ہے کہ اگر نظام کو لپیٹنے کا فیصلہ ہو ہی جائے گا، تو وہ اس طرف کھڑا ہونا چاہیں گے، ان کے پاس وقت ہے، بلاول کو ابھی وقت چاہیے۔ دو تین سال کی ٹیکنوکریٹ حکومت بلاول کے لیے اچھی ہے۔ بلاول کو اپوزیشن کرنے کا بھر پور وقت مل جائے گا۔ فی الحال سیاسی صورتحال مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول میں ہے، لیکن کسی سیاسی جماعت کے متعلق کوئی بھی پشین گوئی قبل از وقت ہے۔/۹۸۸/ ن۹۴۰
منبع: اسلام ٹائمز