‫‫کیٹیگری‬ :
02 June 2018 - 17:41
News ID: 436141
فونت
آیت الله جعفرسبحانی:
حضرت آیت الله جعفر سبحانی نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ ملک کی نجات ، بے گانہ طاقتوں اور دشمنوں سے رابطے میں پوشیدہ نہ جانیں کہا: بعض افراد یہ نہ کہیں کہ اگر فلاں ملک سے ہمارے تعلقات ختم ہوگئے تو مشکلات سے روبرو ہوں گے کیوں کہ یہ دور جاہلیت کی فکر ہے ۔
حضرت آیت الله جعفر سبحانی

رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق، مراجع تقلید قم میں سے حضرت آیت الله جعفر سبحانی نے مدرسہ علمیہ حجتیہ قم میں منعقد تفسیر قران کریم کی نشست میں جس میں سیکڑوں طلاب و افاضل حوزہ نے شرکت کی ، سورہ توبہ کی ۲۴ – ۲۵ آیت تفسیر کرتے ہوئے کہا: اس آیۃ کریمہ میں جھاد سے بچنے کے لئے مسلمانوں کے آٹھ بہانے بیان کئے گئے ہیں ۔

انہوں ںے بیان کیا: جس وقت حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام نے حج اکبر کے روز، آیتوں کو لوگوں کے لئے تلاوت کیا اور مشرکوں کے لئے چار ماہ کی مہلت دی گئی ، مسلمان بہانے بازی اور توجیہ کرنے پر اتر آئے کہ اگر مشرکین، مکہ و مدینہ نہ آئیں گے تو ہماری مارکیٹ خراب ہوجائے گی کیوں کہ اس زمانے میں اقتصادی مسائل پر ان افراد کا اثر تھا ۔

حضرت آیت الله سبحانی نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ ۲۴ ویں آیت انہیں افراد کے جواب میں نازل ہوئی ہے کہا: اس آیت میں آیا ہے کہ « کہدیجئے: تمہارے آبا اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہاری برادری اور تمہارے وہ اموال جو تم کماتے ہو اور تمہاری وہ تجارت جس کے بند ہونے کا تمہیں خوف ہے اور تمہاری پسند کے مکانات اگر تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور راہ خدا میں جہاد سے زیادہ عزیز ہیں تو ٹھہرو! یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے اور اللہ فاسقوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا» ۔

انہوں نے مزید کہا: اس چیزوں سے محبت ایک فطری عمل ہے ، تو یہاں پر ایک سوال اٹھتا ہے کہ خداوند متعال نے ان چیزوں سے محبت کرنے سے کیوں منع کیا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بات بلکل صحیح ہے کہ اپنے گھر، گھرانے اور مال و دولت سے محبت ، فطری عمل ہے اور قران نے بھی اس سے منع نہیں کیا بلکہ مقصد ہے کہ ھرگز یہ محبت راہ خدا میں جہاد کرنے میں آڑے نہیں چاہئے ، یعنی اگر بات جہاد اور ان چیزوں سے محبت کے درمیان دائر ہوجائے تو جہاد مقدم ہے ۔

اس مرجع تقلید نے یاد دہانی کی : اسی بنیاد پر آیت کریمہ میں لفظ «احبّ» سے استفادہ کیا گیا ہے کہ جو افعل تفضیل ہے یعنی انسان دین و دنیا دنوں سے محبت کرسکتا ہے مگر جہاد فی سبیل اللہ پر زیادہ توجہ کرے ۔

انہوں نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ بعض مفسرین نے اس آیت میں موجود «امر خدا» کو عذاب کے معنی میں لیا ہے کہا: میری نگاہ میں یہ معنی صحیح نہیں ہیں اور مرحوم علامہ طباطبائی(ره) نے تفسیر المیزان میں کہ جو ایک بے مثال تفسیر ہے، بیان کیا ہے کہ سوره مائده کی 54 ویں آیت کے پیش نظر اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ « اگرتم بہانہ تراشی کروگے تو پروردگار مستقبل میں ایک ایسی قوم کو پیدا کرے جو خدا کو دوست رکھیں گے اور خدا انہیں دوست رکھے گا اور وہ خدا کی راہ میں جہاد کریں گے »۔

حضرت آیت الله سبحانی نے اپنے بیان کے دوسرے حصہ میں بیان کیا: بعض کا کہنا ہے کہ سوره مائده کی 54 ویں آیت ، پیغمبر اسلام(ص) سے منقول روایت کے آئینہ میں ایرانیوں سے متعلق ہے کہ جو میری نگاہ سے صحیح ہے کیوں ایرانی اور قوم فارس نے ھمیشہ اسلام کی توسیع میں قلم اور قدم سے خدمت کی ، انہوں نے اس میدان میں کافی مجاھدت کی ہے ۔

انہوں نے بیان کیا : ان دونوں آیتوں سے ایک دوسرا استفادہ بھی کیا جاتا ہے، ایک یہ کہ ھرگز گھر، گھرانے ، مال و دولت سے وابستگی انسان کے دین کو ضعیف نہ کرے ،  اسی بنیاد پر بعض افراد یہ نہ کہیں کہ اگر فلاں ملک سے ہمارے تعلقات ختم ہوگئے تو ہم مشکلات سے روبرو ہوں گے کیوں کہ یہ دور جاہلیت کی فکر ہے ، ابتدائے اسلام میں بھی بعض افراد نے انہیں باتوں کو کہا تھا ۔

حوزه علمیہ قم میں درس خارج کے استاد نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ عصر حاضر میں بعض افراد کے منھ سے نکلنے والی اس طرح کی باتیں دور جاہلیت کے افراد کے جیسی ہیں کہا: اگر ہم امریکا جیسے ملک کہ نہ جس کا وعدہ، وعدہ ہے اور نہ جس کی باتیں قابل اعتبار، رابطہ ختم کرلیں تو کوئی مشکل پیش نہ آئے گی کیوں کہ ملک میں ایسے جوان موجود ہیں جو ملک کو ادارہ کرنے کی توانائی رکھتے ہیں لہذا ہم دوسروں پر تکیہ کرنے کے  بجائے خود اپنے جوانوں پر تکیہ کریں ۔

انہوں نے یاد دہانی کی: دوسرے یہ کہ رسول اسلام سے محبت دین اسلام کی اساس و بنیاد ہے اور حضرت سے دوستی کے دومعنی ہیں ، ایک یہ کہ یہ محبت اس بات کا سبب بنتی ہے کہ انسان میدان عمل میں بھی حضرت کی پیروی کرے ، دوسرے یہ کہ یہ محبت ایک قسم کا کمال محسوب کی جاتی ہے ۔

حضرت آیت الله سبحانی نے یہ کہتے ہوئے کہ توسل کے سلسلہ میں وھابیت نے غلطی کی ہے کہا: مسجدوں کے در و دیوار کا بوسہ لینا یا اهل بیت(ع) کے حرم کو چومنا یا پیغمبر اسلام یا اهل بیت(ع) کی مجلسیں برپا کرنا ، نبی خدا (ص) اور اهل بیت(ع) سے محبت کا مظھر ہے کیوں کہ محبوب سے محبت بھی مورد پسند ہے ۔/۹۸۸ /ن۹۷۰

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬