‫‫کیٹیگری‬ :
10 June 2018 - 17:05
News ID: 436228
فونت
حجت الاسلام سید ابراہیم رئیسی :
حوزہ علمیہ خراسان کے استاد نے کہا : حق لیا جاتا ہے اور یہ چیز طاقت و قدرت سے ممکن ہے نہ یا خواہش و تمنا کرنے سے ؛ فلسطین کے تاریخی تجربہ نے یہ ثابت کردیا کہ سمجھوتے کا مطلب ظلم و زبردستی کا قبول کرنا ہے۔
سید ابراہیم رئیسی

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حجت الاسلام والمسلمین سید ابراہیم رئیسی نے قدس کے عالمی دن کی مناسبت سے خطاب میں کہا: اسلامی جمہوریہ ایران کی فتح ؛تاریخی لحاظ سے فلسطینی عوام کے لئے فیصلہ کن موڑ تھا اور اس فتح سے فلطسینی تحریک نسلی قوم پرست تحریک سے نکل کر اسلامی اور عوامی استقامتی تحریک میں تبدیل ہو گئی،در حقیقت یہ وہی امام خمینیؒ کی راہ و روش تھی اور اسلام ناب محمدی(ص) کا تسلسل تھا یعنی ظلم سے مبارزہ۔

انہوں نے مزید وضاحت دیتے ہوئے کہا: فلسطین کا دفاع عربوں نے قوم پرستی کی بنیاد پر کیا جس کے نتیجہ میں انہیں شکست کا سامنا ہوا، جس کا واضح ترین نمونہ ۱۹۶۷ سے ۱۹۷۳ کی جنگ ہے ؛ لیکن اسلامی اور عوامی استقامتی تحریک کی تشکیل سے بہت ساری فتوحات حاصل ہوئیں ؛ جنوب لبنان اور غزہ صہیونیزم کی عقب نشینی سے آزاد ہوا۔ اور ۳۳،۲۲،۵۱ اور ۸ دنوں کی ہونے والی جنگوں نے غاصب صہیونیزم کو قدم بہ قدم پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا، اور وہ غاصب حکومت جو کل تک تیل سے فرات کا دعویدار تھی ؛ اپنی سلامتی کے لئے مجبور ہو کر اپنے اطراف میں اونچی اونچی دیواریں بنانے لگ گئی۔

مجلس خبرگان رہبری کے اعلیٰ رکن نے وضاحت دیتے ہوئے کہا: فلسطین کے تاریخی تجربہ سے پتہ چلتا ہے کہ غدار دشمن  سے حق لینا فقط عوامی مزاحمتی میدان میں ممکن ہے اور مذاکراتی میز پر سمجھوتہ اور ساز باز کرنا در حقیقت فریب اور دھوکہ دہی ہے اور اس چیز سے فقط دشمن جری سے جری تر ہوتا جائے گا۔

اسلو معاہدے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: فلسطین کے تھکے اور خستہ افراد کا جعلی اور غاصب اسرائیل حکومت سے طے پانے والا اسلو نامی معاہدہ کا نتیجہ کیا نکلا؟  نتیجہ یہ تھا کہ صہیونیزم نے امریکی پشت پناہی سے ہر وہ چیز جو کاغذ پر تحریر کی اسے پالیا، لیکن اس کے مدّ مقابل اپنے کسی بھی وعدے پر عمل نہ کیا اور حتی یاسر عرفات جس نے فلسطینی نمائندہ کے عنوان سے دستخط کئے تھے اور اس اسلو معاہدہ کو دس سال تک مذاکرات کی میز پر لے کر چلتا تھا اسے شک کی بنا پر معطل کر دیا گیا۔

آستان قدس رضوی کے محترم متولی نے گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا: آج نئے امریکہ صدر نے یہ اعلان کیا ہے کہ فلسطین کے لئے ایک اور ایجنڈا تشکیل دیا ہے، سوال یہ ہے کہ اس توافق اور قرار داد کو جسے امریکی اور صہیونیزم حکومت نے انجام دیا ہے کس سے انجام دیا ہے؟ ایک طرفہ زور و زبردستی اور تحمیل جس کے سارے فلسطینی مخالف ہیں ؛ اس کو قرار داد کا نام دیا  گیا ؟ کیا یہ ممکن ہے کہ فلسطین کے بارے میں فلسطینی عوام کی رای لئے بغیر ایک قرار داد باندھی جائے؟

حوزہ علمیہ خراسان کے استاد نے بیان کیا : اس قرار داد میں ٹرمپ یہ چاہتا ہے کہ صحرای سینا کو جو مصر کا حصہ ہے اسے ایک نئی مملکت کی تشکیل کے لئے قرار دے۔اور اس ملک کی تشکیل کا بجٹ اور پیسہ امارات اور سعودی عرب جیسے خائنوں سے وصول کریں؛ اس معاہدہ کے ذریعے چاہتے ہیں کہ پانچ میلین فلسطینی عوام کو جعلی ہویت کے ساتھ صحرای سینا میں جگہ فراہم کریں اور باقی آوارہ فلسطینیوں کی مزاحمت سے بچنے کے لئے اور ناپاک غاصب صہیونیزم یعنی اسرائیل کو بچانے کے لئے ان فلسطینیوں کو مختلف ممالک کی شہریت دینا چاہتے ہیں۔

ریاستی مصلحتوں کو تشخیص دینے والی کونسل کے اعلیٰ رکن نے بتایا کہ ٹرمپ چاہتا ہے کہ فلسطین کی ہویت کو بھی ختم کردے اور بیت المقدس کو یہودیوں کے قبضہ میں رہنے دے اوراسی طرح مصرپر بھی قضہ کرنا چاہتا ہے!یہ اس صدی کا عجیب ترین معاہدہ ہے! اس اقدام کا مطلب یعنی خطے میں بسنے والی عوام پر ظلم و بربریت کی آگ پر پٹرول کا پھینکنا ہے۔

انہوں نے بیان کیا : میں جناب ٹرمپ کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے سے پہلے امریکی حکام کے ایجنڈوں پر بھی نظر کریں اور جان لے کہ یہ معاہدہ بھی پہلے کی طرح شکست کھائے گا۔امریکی قرار داد اس صدی کا بہترین معاملہ نہیں ہے بلکہ امریکیوں اور ان کے پشت پناہوں کے لئے دلدل ہے جس سے باہر نہ نکل پائیں گے۔

ابراہیم رئیسی نے کہا: گذشتہ صدی میں مغربی خبیث معاہدہ کے تحت غاصب صہیونیزم حکومت کی تشکیل کے بدلے میں آل سعود کو سعودی عرب پر حاکم بنایا گیا اور آج ایک بار پھر سے اسی معاہدے کو دوہرانا چاہتے ہیں اور قدس شریف و فلسطینی عوام کی ھویت کی نابودی کے لئے آل سلمان کو اس سرزمین میں ٹھہرانا چاہتے ہیں۔/۹۸۹/ف۹۷۰/

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬