رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شیعہ علماء کونسل پاکستان کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے راولپنڈی سے جاری کئے گئے بیان میں کہا ہے کہ آئین کسی بھی معاشرے کی اکائیوں کو جوڑنے اور ملکی استحکام کا ضامن ہوتا ہے، لیکن کیا آئین پاکستان بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرسکا، تمام طبقات کے حقوق دیئے گئے، آئین کو چیلنج کرنیوالوں کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا۔؟ انکا کہنا تھا کہ آئین عوام کے حقوق کا تحفظ کرنے میں ناکام ہوچکا، افسوس آئین کی بالادستی کی صرف مالا جپی گئی عملاً کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا، مضبوط جمہوری معاشروں کے لئے آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی یقینی بنانا ہوگی، آج ملک معلق اور قوم خوفزدہ ہے۔ سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ آئین کہیں یا دستور، وہ کسی بھی معاشرے کی اکائیوں کو جوڑنے، ملک کی مضبوطی کا ضامن ہوتا ہے، لیکن کچھ سوالات ہیں کہ جنہوں نے حقائق کی بنیاد پر جنم لیا ہے، کیا آئین نے پاکستان کو جوڑے رکھا؟
آئین جس نے نظام میں توازن برقرار رکھنا تھا، وہ اس کو قائم رکھ سکا؟ آئین جس نے تمام طبقات کو حقوق دینے کا وعدہ کیا تھا، کیا پسے ہوئے طبقات کی نمائندگی کرتے ہوئے انہیں حقوق میسر آئے؟ کیا بنیادی حقوق اور شہری آزادیوں کا تحفظ کیا گیا؟ آئین کی بہت سی ایسی دفعات معطل نہیں کر دیا گیا، جن کا براہ راست تعلق عوامی حقوق اور بنیادی انسانی حقوق سے تھا؟ آئین جب بالادست تھا تو پھر اسکی بالادستی کو چیلنج کرنیوالوں، اسے روندنے والوں کے حوالے سے کیا حکمت عملی اختیار کی گئی؟ صرف آئین کی بالادستی کی مالا جپنے والوں نے کیونکر کردار ادا نہ کیا؟ کیا صرف باتوں یا دبے دبے انداز سے ہی آئینی بالادستی قائم کی جاسکتی ہے؟ برسراقتدار آنیوالوں نے اعلیٰ انتظامی عہدوں پر تعیناتی کے وقت آئین کی بالادستی اور اس کے راستے میں حائل رکاوٹوں کے خاتمے کے لئے کوئی اقدام کیوں نہیں اٹھایا۔؟ انکا کہنا تھا کہ ان سوالات کا جواب ہر ذی شعور، سنجیدہ اور حالات کی نبض پر ہاتھ رکھنے والا محب وطن شہری پوچھتا ہے، لیکن اس کا جواب کون دے گا؟
علامہ سید ساجد علی نقوی نے مزید کہا کہ میں خود عینی شاہد ہوں کہ کس طرح عوام ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں، سرعام انسانی حقوق پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے، پورا ملک معلق ہوچکا ہے، ہر شخص خوف میں مبتلا ہے، آزادی اظہار پر طرح طرح سے پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں، ان تمام وجوہات کی بنا پر کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ آئین پھر بھی کامیاب ہے، جبکہ حقیقتاً آئین عوام کو تحفظ دینے، عوام کے حقوق کی پاسداری کرنے، صحیح معنوں میں عوامی شراکت اقتدار سے لے کر بنیادی سہولیات دینے تک کے مراحل میں ناکام ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیا کوئی ذمہ داری اٹھانے کے لئے تیار ہے، کیا کوئی واقعتاً آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی کا حق ادا کرنے کے لئے تیار ہے، صرف باتوں سے نہ آئین کی بالادستی قائم کی جاسکتی ہے، نہ ہی قانون کی حکمرانی یقینی بنائی جاسکتی ہے، مضبوط معاشرے اور خصوصاً مضبوط جمہوری معاشرے کے لئے ضروری ہے کہ آئین کی بالادستی کے قیام اور قانون کی صحیح معنوں میں حکمرانی کے لئے سنجیدہ اقدامات اٹھائے جائیں، اگر مذکورہ بالا سوالات حل کر لئے لئے گئے تو پھر کہا جاسکتا ہے کہ واقعتاً آئین کامیاب ہوگیا، بصورت دیگر اس کی کامیابی کے امکانات مزید معدوم ہی ہوتے جائیں گے۔ /۔۹۸۸/ ن۹۴۰