رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حضرت نبی اکرم(ص) اور حجاج کرام نے 18 ذی الحجہ، صبح میں نماز ادا کی، پھر کیا تھا۔۔۔۔ کاروان ولایت چل پڑا۔۔۔ اس مقام کی جانب جہاں پر کچھ نیا ہونے والا تھا۔
شاید مسلمانوں کی خوشحالی اور کفار کی مایوسی کا پیغام ہو!
اسی لئے منافقین کے ٹولے میں کھلبھلی مچی ہوئی تھی کیوں کہ رسول خدا(ص) نے کبھی منی میں ولایت کا اشارہ دیا، تو کہیں مسجد خیف میں حدیث ثقلین سنائی۔ وہیں سے منافقوں کی سرگرمیوں کا آغاز ہوگیا تھا اور کچھ لوگوں نے تو عہد و پیمان بھی کرلیا کہ کچھ بھی ہو امامت کو اہل بیت میں نہیں جانے دینا ہے۔ بحارالانوار، ج37، 114۔
اور حج کے اختتام تک تو علی بن ابی طالب(ع) کے لئے امیرالمومنین کا لقب بھی خدا کی جانب سے آگیا تو انکے لئے پریشانی کا سبب تو تھا ہی۔
بہر کیف ابھی پانچ گھنٹے کا سفر باقی تھا۔ اور تقریبا124000جیسا مسلمانوں کا عظیم مجمع ٹھاٹھیں مارتی ہوئی پانی کی موجوں کی طرح منزل مقصود کی سمت رواں دواں تھا۔۔۔۔ تبھی وہ گھڑی آگئی جب آنحضرت(ع) نے کراع غمیم پر قدم رکھا تو اپنا رخ غدیر کی جانب موڑ دیا اور فرمایا: ایھا الناس، اجیبو داعی اللہ، انا رسول اللہ
یہ اشارہ تھا کہ کوئی اہم پیغام خدا کی جانب سے آن پہونچا ہے۔ پھر منادی کو حکم ملا کہ آواز دے جو آگے چلے گئے ہیں واپس آئیں اور جو پیچھے رہ گئے ہیں انکا انتظار کیا جائے، آگے والے لوگ پیچھے آئے پیچھے رہ جانے والوں کا انتظار کیا گیا اس طرح مسلمان ایک جگہ جمع ہوئے اور یہ صحرا پہلی بار اتنے عظیم اجتماع کا میزبان بنا۔
گرمی کی شدت کی وجہ سے لوگ اپنے لباس کے ایک سرے کو سر پر تو دوسرا سرا پیروں کے نیچے رکھے ہوئے تھے، نبی گرامی نے مقداد سلمان ابوذر اور عمار کو بلایا تاکہ کچھ ایک قطار میں لگے ہوئے پرانے درختوں کے پاس کی جگہ کو صاف کریں اور انکی شاخوں کے سہارے ایک سائباں کا انتظام کریں، اس لئے کہ دھوپ کی شدت ہے اور پروگرام تین دن کا۔۔۔ اس کے بعد پتھروں یکجا کیا گیا، کجاوے اتارے گئے تاکہ غدیری منبر بنایا جاسکے۔
خلاصہ یہ انتظار کے لمحے ختم ہوئے اذان ظہر کے ساتھ نماز باجماعت کا قیام ہوا اور رسول منبر پر تشریف لے گئے لیکن اس مرتبہ منبر پر اکیلے نہیں بلکہ امیرالمومنین کو بھی حکم دیا کہ منبر پر آئیں ادھر علی(ع) منبر نبی کی داہنی طرف کھڑے ہوئے ادھر رسول(ص) کا تاریخی خطبہ شروع ہوا،الحمد للہ الذی علی فی توحدہ۔۔۔ مسلمان اپنے نبی کے خطبہ کو چلچلاتی دھوپ میں بغور سن رہے تھے تبھی آواز آئی الا من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ۔۔۔۔ آگاہ ہوجاؤ جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولی ہیں۔ ادھر غدیری اعلان سنایاگیا ادھر خدا نے اسلام پر مہر لگادی۔
الْيَوْمَ يَئسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن دِينِكُمْ فَلَا تخشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ أَتممْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتی وَ رَضِيتُ لَكُمُ الْاسْلَام دینا۔ مائدہ آیت3 کفار تمہارے دین سے مایوس ہوگئے ہیں لہذا تم ان سے نہ ڈرو مجھ سے ڈرو، تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے۔
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص قَالَ اللَّهُ جَلَّ جَلَالُهُ لَوِ اجْتَمَعَ النَّاسُ كُلُّهُمْ عَلَى وَلَايَةِ عَلِيٍّ ع مَا خَلَقْتُ النَّارَ۔ خدائے عزوجل نے فرمایا: اگر تمام لوگ ولایت علی پر جمع ہوجاتے تو جہنم کو خلق ہی نہ کرتا۔ الجواهر السنية في الأحاديث القدسية (كليات حديث قدسى)، ص467؛ الأمالي( للصدوق)، ص657
غدیر عید ولایت و سیاست
10 ہجری 18 ذی الحجہ رسول خدا نے بحکم خدا حضرت علی عليه السلام کی خلافت بلا فصل کا عام اعلان کردیا اس میں کوئی سمجھ دار شخص شک و شبہ نہیں کر سکتا واقعہ غدیر پر شیعہ وسنی سب کا اتفاق ہے غدیر سے انکار یعنی تمام معتبر سنی کتابون کا انکار ۔
اسلامی اتحاد کا مہم مرکز غدیر ہے عید غدیر صرف شیعوں سے مخصوص نہیں اور صرف مسلمانوں سے مخصوص نہیں بلکہ یہ بشریت وانسانیت کی عید ہے حضرت علی عليه السلام سب کے امام و رہبر ہیں غدیر کی معرفت ہم کو علوی حکومت و سیرت سے نزدیک و قریب کرتی ہےلیکن افسوس صد افسوس بعض ایسے لوگ جو دین و غدیر کے پیغام سے واقف نہیں ہیں کہتے ہیں ولایت و امامت سیاست سے جدا ہےتمام انبیا بشریت کی راہنمائی اور رہبری کرنے کے لئے آئے رسول خدا کو بھی بھیجنے کا یہی مقصد تھا ۔
غدیر اسی سلسلہ و لڑی کا نام ہے امامت سماج و معاشرہ اور بشریت کی ضرورت ہے عید غدیر حکومت علوی کا ابلاغ ہے حکومت اسلامی کی تشکیل کا اعلان ہے
آیا بغیر سیاست کے حکومت کی جاسکتی ہے؟ آیابغیر حکومت کے احکام الہی اور قانون شریعت کا نفاذ ممکن ہے ؟آیا بغیر حکومت کے شرارتی ، ظالم و جابر، غنڈہ ، بدمعاش ۔۔۔کو لگام لگائی جاسکتی ہے؟آیا بغیر حکومت کے عوام کا حق دلایا جاسکتاہے؟*
غدیر یعنی حکومت و سیاست اگر پیغام غدیر پر تمام مسلمان و انسان عمل کرتے تو آج دنیا کا حال یہ نہ ہوتا بحرین،یمن۔فلسطین اور برما وغیرہ میں بے گناہ لوگوں کے خون سے ہولی نہیں کھیلی جاتی وحشیانہ طریقے سے ان کو نہیں مارا جاتا اسلامی ملکوں میں چند کے علاوہ حکمراں دشمنان اسلام کے غلام نہ ہوتے وفادار کتے کی طرح ان کے اشاروں پر دم نہ ہلاتے اسلامی ممالک میں اکثر ملکوں کے فرمانروا سنی ہیں اس کے بعد بھی برما میں سنی مسلمانوں کی غیر انسانی طریقے سے نسلی تطہیر کی جا رہی ہے ان میں اتنا بھی دم نہیں کہ صرف برما کے سفیر کو اپنے ملکوں سے نکال باہر کریں
اسلامی ملکوں کوتباہ و برباد کرنے کے لئے سارے امکانات استعمال کرتے ہیں بحرین وغیرہ میں فوج وغیرہ بھی بھیج دی کم از کم برما کے مسلمانوں کے لئے ایک گولی بھیج دیتے ۔
یہ غدیر سے دوری کا نتیجہ ہے
اگر عراق، سوریہ، یمن وغیرہ میں غدیر کے پیغام پر عمل کرنے والے نہ ہوتے تو داعش النصرہ ۔۔۔جیسے جلاد خون پینے والوں اور اشرار کی حکومت ہوتی ۔
غدیر کا واقعہ اس نظریئے کو رد و باطل کرتا ہے کہ دین سیاست سے جدا ہے ۔ جو لوگ کہتے ہیں دین و امامت سیاست سے جدا ہے اگر سیاست سے ان کی مراد سقیفی، اموی عباسی سیاست ہے تو حق ان کے ساتھ ہے یقینا مقدس دین اسلام سے ان کی سیاست و مکرو فریب کا کوئی ربط نہیں لیکن اگر سیاست سے مراد محمدی،علوی اور حسینی سیاست ہے تو یہ سیاست دین سے جدا نہیں بلکہ یہ عین دین ہے جو اس سیاست کو دین سے جدا کرتے ہیں وہ خود دین سے جدا ہیں غدیر یعنی دین سیاست سے جدا نہین لہذا غدیر عید ولایت و سیاست ہے ۔عید غدیر سے دشمنی کا سبب یہی ہے۔/۹۸۹/ف۹۵۵/