رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جمعیت علماء اہلحدیث اور امن و تعلیم فاونڈیشن کے چیئرمین کا ایک گفتگو میں کہنا تھا کہ حرمین کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اگر خطرہ ہے تو وہ حرمین کو نہیں بلکہ سعودیوں کو ہے۔ آل سعود کے جو دوست ہیں، وہ کھل کر انکا ساتھ دیں مگر حرمین کو درمیان میں مت لائیں۔ حرمین آل سعود یا عربوں کا اثاثہ نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کا اثاثہ ہے۔ چنانچہ آل سعود کے تحفظ اور دفاع کیلئے حرمین کے نام کا استعمال بالکل غلط ہے۔ حرمین تمام مسلمانوں کا مشترکہ اثاثہ ہے۔ اسے کوئی خطرہ نہیں، اگر کہیں پہ کوئی خطرہ ہے تو آل سعود کو ہے۔ حرمین شریفین کی برکت اور تقدس کے باعث مسلمانوں کی عقیدت کا مرکز ہے، اقتصادی اور جنگی اعتبار سے اسے مضبوط ہونا چاہیے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ سعودی عرب میں ایک خاندان کی بادشاہت ختم کرکے جمہوری اقدار کو فروغ دیا جائے تو یہ خود سعودی عوام اور آل سعود کے بھی مفاد میں ہوگا۔
بین المذاہب ہم آہنگی سے زیادہ اتحاد بین المسلمین کی زیادہ ضرورت محسوس نہیں کرتے۔؟
قاضی عبدالقدیر خاموش: میں سمجھتا ہوں کہ اتحاد بین المومنین کے بغیر بین المذاہب ہم آہنگی ہو ہی نہیں سکتی۔ اگر ہم اپنے مسلمان بھائیوں کو قبول نہیں کرسکتے تو کسی اور کے ساتھ کیسے ہم آہنگی کرسکتے ہیں، چنانچہ میرے خیال میں بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے اتحاد بین المومنین لازم ہے۔ اس کی عدم موجودگی میں بین المذاہب ہم آہنگی کے لئے ماحول بنایا ہی نہیں جا سکتا۔
اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے کس ملک یا پلیٹ فارم کے کردار کو سراہتے ہیں۔؟
قاضی عبدالقدیر خاموش: کسی بادشاہ نے اپنے مصاحب سے پوچھا کہ سب سے اچھا موسم کون سا ہے اور سب سے برا موسم کون سا ہے، مختلف لوگوں نے اپنی مختلف آراء بیان کیں، ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ جناب سب سے اچھا موسم بھی ساون کا ہے اور سب سے برا موسم بھی ساون کا ہے۔ ساون میں اگر بارش کے بعد ہوا چل پڑے تو سب سے اچھا موسم وہی ہے اور اگر بارش کے بعد ہوا بند ہو جائے تو سب سے برا موسم بھی وہی ہے۔ یہی حال علماء کرام کا بھی ہے۔ یہ سب سے اچھی مخلوق بھی ہیں اور سب سے بری مخلوق بھی ہیں۔ تفرقہ، فتنہ، فساد، انارکی بھی انہی علماء سے پھیلتی ہے اور اس کا سدباب بھی یہی علماء کرسکتے ہیں۔
فتنہ انگیز علماء یا جماعتوں پر ریاست کچھ زیادہ مہربان محسوس ہوتی ہے آپکو۔؟
قاضی عبدالقدیر خاموش: علماء سو اور علماء حق کے مابین تقسیم ہوئی ہے، ایک کا مطمع نظر دنیا اور علماء حق کا دین اور اللہ کی خوشنودی ہے۔ برصغیر میں مذہب کو ہمیشہ اپنے اقتدار کی طوالت کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ بالخصوص 1985ء کے انتخابات کے بعد تو اس بات کی انتہا ہوگئی۔ ریاست اگر چاہے تو انتظامی اقدامات کے ذریعے بہت سے شر سے بچا جاسکتا ہے۔ اگر انتظامی معاملات میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے نظریہ کو سامنے رکھیں تو پھر فرقہ وارانہ فضا بن ہی نہیں سکتی ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے اس ملک کا جو وزیر خارجہ بنایا تھا، وہ ایک قادیانی تھا، سر ظفر اللہ خان۔ انہوں نے جو وزیر قانون بنایا تھا، وہ ایک اچھوت ہندو لیڈر تھا بنگلہ دیش سے، اس کا نام جگندر ناتھ منڈل تھا۔ اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ ملک بھر میں جو قانون سازی ہونی ہے، وہ وزارت قانون سے ہونی ہے اور وزیر قانون بذات خود ایک ہندو ہے۔ اسی طرح بیرونی دنیا میں پاکستان کا تعارف اور چہرہ جس نے پیش کرنا ہے، وہ وزیر خارجہ قادیانی ہے۔ اس سے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بانی پاکستان کا کیا نظریہ تھا اور وہ کیسا پاکستان بنانے کی خواہش رکھتے تھے اور آج کے حالات آپ کے سامنے ہیں۔
پہلے یہ ہی طے کر لیں کہ یہ ملک پاکستان اسلام کیلئے بنایا گیا تھا یا کہ مسلمانوں کیلئے۔؟ اگر پاکستان اسلام کیلئے بنایا جاتا تو کبھی بھی ایک قادیانی وزیر خارجہ اور ایک ہندو وزیر قانون نہ بنتا۔ انہوں نے ایک مسلم ریاست بنائی کہ جہاں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ بہت سارے احباب اسلامی حوالے سے قائداعظم کی مختلف تقاریر کا حوالہ دیتے ہیں، تاہم اس کی کئی معروضات ہوسکتی ہیں، کئی تعبیرات ہوسکتی ہیں۔ اس پہ مختلف آراء موجود ہیں، تاہم جو عملی اقدامات ہیں، ان سے تو صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح پہلے چیف جسٹس عیسائی تھے۔ ابتدا میں پاکستان میں فرقہ وارانہ یا مذہبی منافرت نہیں تھی۔ یہ اسی کی دہائی کے بعد آئی ہے۔ مختلف کالعدم جماعتیں وجود میں آئیں، جنہوں نے ملک کے امن و امان کو تہہ و بالا کر دیا۔ اس وقت ان کے خلاف جو تادیبی کارروائی کرنی چاہیئے تھی، وہ نہیں کی گئی۔
انتہاء پسندی کے حوالے سے جہاد افغانستان کے پاکستان کے اندر کیا اثرات مرتب ہوئے۔؟
قاضی عبدالقدیر خاموش: میں جہاد کو جہاد ہی سمجھتا ہوں۔ جس کی بات آپ کر رہے ہیں، وہ جہاد تھا بھی سہی یا نہیں، یہ الگ موضوع ہے۔ امریکہ سمیت کسی قوت کے اشارے پہ یا مدد سے کوئی جہاد نہیں ہوسکتا۔ البتہ ان کے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے جنگ یا دیگر کچھ ہوسکتا ہے۔ کم از کم میں اسے جہاد نہیں سمجھتا۔ جب یہ نام نہاد جہاد اپنے اختتام کو پہنچا اور عالمی طاقتوں نے اپنے اپنے اقدامات اٹھائے تو باقاعدہ یہ تصحیح کی گئی کہ اس کا اسلام یا جہاد سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اسلام کو ہتھیار یا ٹول کے طور پر استعمال کیا گیا۔
اسّی کی دہائی سے قبل پاکستان میں جو فرقہ وارانہ فسادات ہوئے، انکا ذمہ دار کسے قرار دینگے۔؟
قاضی عبدالقدیر خاموش: میں نے یہ نہیں کہا کہ اسی کی دہائی سے قبل پاکستان میں مذہبی یا مسلکی اختلافات نہیں تھے۔ اختلافات تھے مگر اس کے باوجود مشترکات پہ سب اکٹھے تھے۔ جیسے تحریک ختم نبوت والے معاملے پہ سب اکٹھے تھے۔ اکا دکا واقعات مقامی ماحول اور وجوہات پہ مبنی تھے۔ مجموعی طور پہ پاکستان کی فضا مذہبی منافرت سے آلودہ نہیں تھی۔
پاکستان میں انتہاء پسندی، دہشتگردی یا تخریب کاری روکنے کیلئے کیا اقدامات ناگزیر ہیں۔؟
قاضی عبدالقدیر خاموش: بیرونی فنڈنگ ہر صورت میں روکی جائے۔ اگر کوئی بھی کسی بھی مد میں امداد دینا چاہتا ہے تو اس کا باقاعدہ میکنزم ہو، وہ امداد پہلے حکومت کے پاس آئے اور حکومت کے ذریعے آگے جائے۔ پھر اس کا صاف و شفاف آڈٹ ہو۔ اگر یہ قانون سازی ہو جائے تو امن کی جانب بڑی پیش رفت ہوگی۔
پاکستان امریکی و سعودی کیمپ سے باہر آکر روس، چین اور ایران کے قریب ہو رہا ہے، یہ تبدیلی خوشگوار ہے۔؟
قاضی عبدالقدیر خاموش: بس دورے ہو رہے ہیں، اس کے علاوہ مجھے تو ایسی کوئی تبدیلی محسوس نہیں ہوئی۔ کوئی ایسا پلان یا پروگرام نہیں بنا کہ امریکہ سے ہٹ کر روس کے ساتھ چلیں۔ میاں صاحب کے دور میں تو سرے سے وزیر خارجہ تھا ہی نہیں۔ ہم نے جتنی قربانیاں دی تھیں دہشتگردی کے خلاف، دنیا کو کماحقہ ان کا ادراک نہیں کراسکے، جس کی وجہ سے ہم عالمی سطح پہ تنہائی کا شکار ہوئے۔
پاکستان میں نئی حکومت برسر اقتدار ہے، جسکا کہنا ہے کہ پاکستان، افغانستان سے امریکہ کے فوری انخلاء کا خواہشمند نہیں ہے۔؟
قاضی عبدالقدیر خاموش: دیکھیں بیرونی قوتوں کی موجودگی میں تو افغانستان کے اندر پائیدار امن کی کوئی راہ نہیں نکل سکتی۔ امن و امان افغانستان کے اندر کا مسئلہ ہے تو وہ آپس میں مل بیٹھ کر اسے سلجھا لیں گے۔ میرے خیال میں فوری طور پر پہلے بیرونی افواج افغانستان سے انخلاء کریں، پھر یو این کی نگرانی میں وہاں صاف و شفاف انتخابات کا اہتمام کرکے جمہوری طریقے سے برسراقتدار آنے والوں کے ہاتھ میں اقتدار کی باگ ڈور دی جائے۔ جہاں تک اس بیان کی بات ہے تو اسے حماقت ہی قرار دیا جاسکتا ہے، پاکستان کو یہ حق ہی حاصل نہیں کہ وہ کسی اور ملک کے اندر بیرونی افواج کی موجودگی کا خیر مقدم کرے۔ میرے خیال میں تو یہ اندرونی مداخلت کے ضمن میں آتا ہے۔ ہمسایہ ہونے کے ناطے مانگنے پہ آپ انہیں مشورہ و مدد دے سکتے ہیں، انہیں ڈکٹیٹ نہیں کرسکتے۔
افغان طالبان کیا اب بھی پاکستان کی دسترس میں ہیں۔؟
قاضی عبدالقدیر خاموش: دونوں میں اچھے رابطے ضرور ہیں مگر اب پہلے والی پوزیشن میں پاکستان نہیں ہے۔ پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز تک لانے کیلئے کوشش کرسکتا ہے، مگر مشروط طور پر انہیں کسی کے ساتھ بٹھا نہیں سکتا۔
یمن کا معاملہ پورے عالم اسلام کیلئے انتہائی تشویشناک صورت اختیار کرچکا ہے۔؟ یمن پہ جاری حملوں کے بارے میں آپکی کیا رائے ہے۔؟
قاضی عبدالقدیر خاموش: میں سمجھتا ہوں کہ پورے عالم اسلام کی بدقسمتی ہے کہ اسے حالیہ مسائل و چیلنجز کا سامنا ہے۔ کسی بھی ملک کو دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے۔ اپنی مرضی کی حکومتوں کے قیام کیلئے اس نہج تک نہیں جانا چاہیئے اور نہ ہی اس طرح خون کی ہولی کھیلنی چاہیئے۔ سعودی عرب کو اپنی جنگ اپنے ملک کے اندر لڑنی چاہیئے۔ دوسرے ممالک میں مداخلت کسی کو بھی نہیں کرنی چاہیئے۔ بہترین یہ ہے کہ او آئی سی کو فعال کرکے اسی کے ذریعے ان مسائل کا حل سامنے لایا جائے۔ اب او آئی سی اسلامی ممالک کی تنظیم کے بجائے "اوہ آئی سی" بنکر رہ گئی ہے۔ اسلامی دنیا کو ان گرم و سرد جنگوں سے باہر آنا چاہیئے۔ ایک دوسرے کی سالمیت اور خود مختاری کو مقدم رکھنا چاہیئے۔
کیا سمجھتے ہیں کہ یمن میں جاری جنگی جرائم کی تحقیقات نہیں ہونی چاہیئے۔؟ کیونکہ پاکستان نے اسکی مخالفت میں ووٹ دیا ہے۔؟
قاضی عبدالقدیر خاموش: جنگی جرائم کی تحقیقات سے انکار انتہائی غلط عمل ہے۔ کہیں بھی انسانی حقوق کسی بھی صورت میں پامال ہو رہے ہیں تو اس کی تحقیقات ہونی چاہیئے۔ یمن اور دیگر ممالک میں بھی یہ تحقیقات ہونی چاہیئے۔ اگر پاکستان نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا ہے تو یہ پاکستان کا غلط فیصلہ ہے۔ جرائم کی تحقیقات سے انکار نہیں ہونا چاہیئے۔
سعودی عرب اور اسرائیل نے اپنے اہداف و عزائم میں اشتراک ظاہر کیا ہے، سعودی عرب نے اسرائیل کیلئے فضائی حدود بھی کھولی ہے، یہ عمل کیا تحریک آزادی فلسطین کیساتھ غداری کے متراف نہیں۔؟
قاضی عبدالقدیر خاموش: میرے پاس براہ راست ایسے کوئی ثبوت تو نہیں ہیں کہ جس سے ظاہر ہو کہ دونوں کے اہداف اور مقاصد مشترک ہیں۔ تاہم میرے خیال میں جو بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرے گا، درحقیقت وہ فلسطین کی آزادی کی تحریک سے انحراف کرے گا۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ سعودی عرب کے اندر اتنی قوت و طاقت ہی نہیں کہ وہ کسی بھی حوالے سے اسرائیل کا راستہ روک سکے۔ اگر اسرائیل سعودی عرب کی فضائی حدود استعمال کرنا چاہے تو سعودی عرب اسے روکنے کی قدرت نہیں رکھتا۔ ماضی میں جب اسرائیل نے عراق کی تنصیبات پہ حملہ کیا تھا تو اس وقت بھی سعودی عرب کی فضائی حدود استعمال کی گئی تھی۔
اگر کوئی اسلامی ملک اسرائیل کا راستہ روکنے کی ہمت و قوت کا اظہار کرتا ہے تو دیگر اسلامی ممالک پہ لازم نہیں کہ اس ملک کا ساتھ دیں اور اسکی معاونت کریں۔؟
قاضی عبدالقدیر خاموش: پہلی بات تو یہ ہے کہ اب امت کا وہ تصور رہ نہیں گیا۔ مسلمان ممالک علاقائی تنظیموں کا حصہ بن چکے ہیں۔ اپنے اپنے معاشی مفادات کیلئے متحرک ہیں۔ معاشیات نے اسلامیات پہ غلبہ حاصل کر لیا ہے۔ کہیں عرب لیگ، کہیں شنگھائی کوارڈینیشن، کہیں سارک جیسے فورم اب زیادہ معروف ہوچکے ہیں۔ ویسے فلسطین کا قضیہ عربوں کا نہیں بلکہ اسلامی قضیہ ہے۔ کوئی بھی ملک اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے اسرائیل کی حمایت کرتا ہے، اس سے تعاون کرتا ہے تو وہ ملک اسلامی غیرت و حمیت سے قطعاً محروم ہے اور مسلمانوں کا دشمن ہے۔
امریکی صدر نے آل سعود کی حکومت کو اپنے مرہون منت قرار دیا ہے۔؟ یہ ایک بالواسطہ دھمکی تھی، مگر اس پہ خاموشی چھاگئی، کیوں۔؟
قاضی عبدالقدیر خاموش: دیکھیں آل سعود اور حرمین دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ جب ابرہہ نے بیت اللہ پہ حملہ کیا تھا تو اس وقت حضرت عبدالمطلب اپنے اونٹ لینے گئے تھے۔ آل سعود حرمین کے محافظ نہیں ہیں۔ حرمین کا محافظ اللہ ہے۔ موجودہ جو تنظیمیں حرمین کے نام پہ لوگوں میں اشتعال اور غصہ پھیلاتی ہیں، یہ صحیح نہیں ہے، یہ بالکل غلط ہے۔ حرمین کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اگر خطرہ ہے تو وہ حرمین کو نہیں بلکہ سعودیوں کو ہے۔ آل سعود کے جو دوست ہیں، وہ کھل کر ان کا ساتھ دیں، مگر حرمین کو درمیان میں مت لائیں۔ حرمین آل سعود یا عربوں کا اثاثہ نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کا اثاثہ ہے۔ چنانچہ آل سعود کے تحفظ اور دفاع کیلئے حرمین کے نام کا استعمال بالکل غلط ہے۔ حرمین تمام مسلمانوں کا مشترکہ اثاثہ ہے۔ اسے کوئی خطرہ نہیں، اگر کہیں پہ کوئی خطرہ ہے تو آل سعود کو ہے۔
سعودی عرب حرمین شریفین کی برکت اور تقدس کے باعث مسلمانوں کی عقیدت کا مرکز ہے، اقتصادی اور جنگی اعتبار سے اسے مضبوط ہونا چاہیے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ سعودی عرب میں ایک خاندان کی بادشاہت ختم کرکے جمہوری اقدار کو فروغ دیا جائے تو یہ خود سعودی عوام اور آل سعود کے بھی مفاد میں ہوگا۔ امریکی کانگریس نے ابھی نائن الیون کا سعودی حکومت کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔ وہ عراق اور ایران کی طرح اس کے اثاثے بھی منجمد کرسکتے ہیں۔ اس لئے سعودی حکمرانوں کی امریکہ کو اثاثے واپس لانے کی دھمکیاں دینے اور نفسانی خواہشات پر عمل پیرا ہونے کی بجائے، عوامی اور جمہوری حقوق بحال کریں تو ان کا مستقبل محفوظ رہ سکتا ہے۔ چاہے علامتی بادشاہت اپنے پاس رکھیں، لیکن عوام کو سیاسی حقوق دے کر انہیں امور مملکت میں شامل کیا جانا چاہیئے، اس طرح یہ زیاد ہ مضبوط اور توانا ہونے کے ساتھ امت مسلمہ کے لئے بھی بہتر کردار ادا کرسکیں گے۔
پاکستان کو یمن تنازعہ میں کیا کردار ادا کرنا چاہیئے۔؟
قاضی عبدالقدیر خاموش: پاکستان اس پوزیشن میں ہی نہیں ہے کہ وہ تصفیہ یا تنازعہ کے حل میں کوئی کردار ادا کرسکے۔ جو بات بس سے باہر ہو تو اس کیلئے نہ ہی وقت ضائع کرنا چاہیئے اور نہ ہی وسائل خرچ کرکے امیدیں وابستہ کرنی چاہیئے۔ یمن جنگ کے تناظر میں پاکستان آنے والے سعودی وفود یہاں سے مایوس واپس لوٹے ہیں۔ یہاں ہم نے سستا تیل اور پتہ نہیں کیا کیا ان سے امیدیں باندھیں۔ سعودی عرب سستا تیل دے ہی نہیں سکتا، کیونکہ سعودی اوپیک کا ممبر ہے۔ تیل کے عالمی نرخ متعین ہوتے ہیں اور ممبرز کسی کیلئے کوئی کمی بیشی نہیں کرسکتے۔ /۹۸۸/ ن۹۴۰
منبع: اسلام ٹائمز