ھندوستان کے مشہور مبلغ دین مبین اسلام حجت الاسلام فصاحت حسین نے رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر سے گفتگو کرتے ہوئے طالب علموں کی اپنی تشخص و ذمہ داری کی حفاظت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : کسی بھی عمل کے مقابلے میں لوگ جو رد عمل ظاہر کرتے ہیں وہ انکی ہویت یعنی Identity کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ ہویت یعنی ایک شخص یا گروہ کا اپنے بارے میں یہ معلوم ہونا کہ وہ کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ دوسروں کے توقعات بھی کسی سے اسکی ہویت کی بنا پر ہوتے ہیں۔ اپنی ہویت اور تشخص سے ناواقف ہونا ایک بحرانی کیفیت ہے۔ یہ اپنے تشخص کا نہ جاننا ہی ہے کہ طلاب دوسرے کاموں میں مشغول ہوجاتے ہیں اور دوسرے، طالب علموں کا کام کرنے لگتے ہیں۔
انہوں نے امام رضا علیہ السلام کی ایک حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : امام علی رضا (ع) صنف طلاب و علماء کے تشخص کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "رَحِمَ اللّهُ عَبْدا اَحْیا أمْرَنا،» [قال الرّاوی فَقُلْتُ لَهُ: «فَکَیْفَ یُحْیِی أمْرَکُمْ؟» قالَ: «یَتَعَلَّمُ عُلُومَنا و یُعَلِّمُها النّاسَ، فَإِنَّ النّاسَ لَوْ عَلِمُوا مَحاسِنَ کَلامِنا لاَتَّبَعُونا۔" (عيون أخبار الرضا(ع) ج ۱، ح ۶۹)
حجت الاسلام فضاحت حسین نے وضاحت کی : ائمہ (ع) اور ان کی ہدایت و تعلیمات کا تعلق ساری انسانیت سے ہے۔ اسی طرح تشیع اور طلباء کی ہویت یہ ہے کہ ان کو ساری انسانیت کو نجات دینا ہے لہذا اس حدیث کے مطابق کچھ لوگوں کو ان علوم کو اس طرح سے لوگوں کے درمیان پہنچانا چاہئے کہ ساری انسانیت کی نجات کا ذریعہ بن سکیں۔
انہوں نے طالب علم کی ذمہ داری اہل بیت علیہم السلام کی تعلمات لوگوں تک پہوچانا جانا ہے اور بیان کیا : اہل بیت اطہار (ع) کی تعلیمات کو پوری انسانیت تک پہنچانے کے لئے ہمیں دنیا اور بالخصوص اپنے ملک کے حالات کا بخوبی علم رکھتے ہوئے، اسکی مشکلات اور ضرورتوں کو جاننا ہوگا۔
حوزہ علمیہ کے استاد نے دنیا میں پائی جانے والی فقر و فلاکت کو غلط نظریات اور معاشرے میں نا انصافی کا رواج کو اہم علت جانا ہے اور بیان کیا : غربت کی اصلی وجہ لوگوں کی انفرادی مشکلات نہیں ہیں بلکہ یہ غلط نظریات اور کی بنا پر ہے۔ لہذا غربت کا حل بھی بہتر نظریات کی صورت میں ہی ممکن ہوگا۔ فلاحی کاوشیں لائق قدر ہیں اور ہوسکتا ہے کہ وقتی طور پہ لوگوں کی بعض مشکلات کو دور بھی کر دیں۔ لیکن یہ بنیادی حل نہیں ہیں۔
انہوں نے ھندوستان میں رائج اقتصادی نظریہ کو ناقص اور سرمایہ داری نظام جانا ہے اور وضاحت کی : ۱۹۹۱ سے ہمارے ملک میں Economic Liberalization کے نظام کو تنہا راہ نجات کے عنوان سے نافذ کیا گیا ہے۔ اس نظام کا ماننا ہے کہ اکثر وہ ذمہ داریاں جو حکومت ادا کرتی تھی، انہیں سرمایہ داروں کو سونپ دیا جانا چاہئے۔ بیرونی ممالک سے Investment کو بھی بڑھاوا دیا جائے۔ نتیجہ میں کچھ لوگ ارب پتی بنیں گے اور باقی فقیر، لیکن اسکے بغیر ترقی ممکن ہی نہیں۔
فصاحت حسین نے بیان کیا : اسکے مقابلے میں کارل مارکس نے اپنے زمانے میں راہ نجات کے طور پر Communism کا نظریہ پیش کیا۔ اس کا ماننا تھا کہ انفرادی ملکیت کو ختم کیا جائے اور تمام سرمایہ حکومت کے ہاتھوں میں ہو تا کہ وہ اپنی صوابدید سے، لوگوں کو انکی ضرورت کے مطابق اور نہ انکی لالچ کے، استعمال کرنے دے۔ لیکن Communism بھی غربت کو ختم کرنے میں ناکام رہا۔
انہوں نے اسلامی اقتصادی نظریہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا : اسلام بھی غربت سے مقابلے اور خوشحالی اور آسائش کے حصول کے لئے ایک جامع اقتصادی نظریہ رکھتا ہے، جسکے کچھ اہم اصول اس طرح ہیں کہ الف: اسلامی نظام کی بنیاد عدالت پر ہے۔ "بالعدل قامت السماوات و الارض"۔ (عوالي اللآلي: ج ۴ص ۱۰۳)۔ ب: اسلامی نظام میں ربا حرام ہے "احل الله البیع و حرم الربا" (سوره بقرہ ۲۷۵) ج: مال کو صرف چند لوگوں کے ہاتھوں میں گھومتے رہنا نہیں چاہئے: "كَيْ لا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الأغْنِيَاءِ مِنْكُمْ"۔ (سوره حشر ۹)
حوزہ علمیہ کے استاد نے وضاحت کی : اسی طرح تمام شعبہ ہائے حیات میں صرف اسلام کے نظریے ہی بشریت کی نجات کے ضامن ہیں۔ مگر ہر نظریہ کو استخراج کرنا اور پھر اس سے اس شعبہ کا اسلامی نظریہ بنا کر دنیا والوں تک پہنچانے کے لئے درجۂ اجتہاد تک کی اسلام شناسی ضروری ہے۔ یہ انجام دینا ہی ہم طلاب علوم دینیہ کا اہم ترین فریضہ ہے۔
حجت الاسلام فصاحت حسین نے اس سوال کے جواب میں کہ کیا اس بات کی امید کی جا سکتی ہے کہ غیرمسلمان، کسی اسلامی نظریہ کو اپنائیں؟ بیان کیا : آج اسلامی بینکنگ کے فوائد کو دیکھتے ہوئے غیر مسلمانوں کی ایک تعداد اسکی طرف رخ کر رہی ہے. یہی صورت حال زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی ایجاد کی جا سکتی ہے. ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسی عملی کامیابیاں پیش کی جائیں جن میں انکے شریک ہونے کا امکان ہو۔/۹۸۹/ف۹۱۴/