رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امریکی ریاست ٹیکساس کی ہیوسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر نے کہا ہے کہ خاتون ایرانی صحافی مرضیہ ہاشمی کی امریکہ میں گرفتاری کے پیچھے نسل پرستی اور متعصبانہ مقاصد ہیں۔
پروفیسر جیرالڈ ہارن نے کہا کہ امریکی میڈیا پریس ٹی وی کی اینکرپسن کی گرفتاری کے واقعے پر خاموش تماشائی بنارہا جس کی وجہ ہے کہ مرضیہ ہاشمی ایک مسلمان اور سیاہ فاہم شہری ہیں۔
انہوں نے امریکہ کی جانب سے ایرانی صحافی کی گرفتاری پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکی میڈیا کے جانبدرانہ رویے کو دیکھ کر عالمی سطح پر آزاد خیال اور خودمختار ذرائع ابلاغ عامہ کو چاہئے کہ آگے بڑھیں اور سیاہ فام افراد کے حقوق پر دنیا کی توجہ دلائیں۔
پروفیسر جیرالڈ ہارن کا کہنا تھا کہ مرضیہ ہاشمی جو امریکی شہریت رکھتی ہیں، کی گرفتاری ایران امریکہ تعلقات پر منفی پہلو ہے، امریکی انتظامیہ کا شاید یہ خیال ہو کہ وہ مرضیہ ہاشمی کی گرفتاری کے بدلے میں ایران کے ساتھ قیدیوں کا تبادلہ کرسکتی ہے۔
کالج آف امریکی افریقی تاریخ اسٹڈیز کے پروفیسر نے امریکہ میں سیاہ فام افراد کے خلاف پولیس کے متعصبانہ رویے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے مزید کہا کہ خاتون ایرانی صحافی کی گرفتاری بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
یاد رہے کہ مرضیہ ہاشمی کو گزشتہ ہفتے سینٹ لوئس لبرٹ بین الاقوامی ایئر پورٹ پر گرفتار کرلیا گیا جس کے بعد ایف بی آئی کے اہلکاروں نے انھیں واشنگٹن میں موجود جیل میں منتقل کردیا۔
خاتون رپورٹر کے اہل خانہ 48 گھنٹوں تک ان کی صورتحال سے لاعلم رہے جبکہ کچھ دن گزرنے کے بعد اہل خانہ کو ان کی گرفتاری سے مطلع کیا گیا۔
پریس ٹی وی کے مطابق، مرضیہ ہاشمی نے اپنے اہل خانہ کو بتایا کہ پولیس نے ان کے ساتھ توہین آمیز رویہ اپنایا۔
انہوں نے بتایا کہ اہلکاروں نے جیل میں منتقلی تک ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا جبکہ ان کے سر سے حجاب بھی اتارا گیا۔
ایرانی وزیر خارجہ نے اس کے ردعمل میں کہا تھا کہ امریکہ میں خاتون ایرانی رپورٹر کی گرفتاری سیاسی عمل ہے لہذا امریکی انتظامیہ انھیں فوری طور پر رہا کرے۔
محمد جواد ظریف نے بتایا کہ پریس ٹی وی کی اینکرپرسن کی گرفتاری ایک سیاسی کھیل ہے۔/۹۸۹/ف۹۴۰/