رپورٹ: ایس اے زیدی
علمائے کرام اور ذاکرین عظام کو مکتب اہلبیت (ع) میں ایک منفرد مقام حاصل ہے، جہاں علماء نے دین کی ترویج اور تبلیغ سمیت تعلیمات محمد و آل محمد (ع) کو پھیلانے میں کردار ادا کیا، وہیں مخلص اور درد دل رکھنے والے ذاکرین بھی پیغام کربلا کے پرچار میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ دشمن تشیع نے ان دونوں طبقات کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے اختلافات ایجاد کرنے کی کئی کوششیں کیں، تاکہ ملت کو تقسیم کیا جاسکے، ان کوششوں میں دشمن کئی مواقع پر کسی حد تک کامیاب بھی رہا۔ علمائے کرام اور ذاکرین کو ایک ساتھ بٹھانے اور اتفاق و اتحاد سے چلنے کی ماضی میں کوششیں کی گئی، جو مفید بھی رہیں۔ اس حوالے سے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے بھی اہم اقدامات کئے۔ گذشتہ دنوں وفاق المدارس شیعہ کی کوششوں سے پنڈی بھٹیاں میں معروف ذاکر اہلبیت (ع) سید ریاض حسین شاہ رتوال کی میزبانی میں علمائے کرام اور ذاکرین عظام کا اجلاس منعقد ہوا، جس کی صدارت علامہ محمد افضل حیدری نے کی۔ اجلاس میں علامہ شفاء حسین نجفی، علامہ سید اشتیاق کاظمی، سید اسد عباس نقوی، شوکت رضا شوکت، سید ضرغام شاہ، وسیم عباس بلوچ سمیت ملک کے جید علمائے کرام اور معروف ذاکرین عظام شریک ہوئے۔ اس موقع پر ایک مشترکہ کمیٹی بھی تشکیل دی گئی۔
ذاکرین عظام نے علماء کی سرپرستی میں چلنے کی بھرپور خواہش کا اظہار کیا اور علمائے کرام سے شفقت پدری کا تقاضا کیا۔ شرکاء اجلاس نے اس امر پر اتفاق کیا کہ انحرافات اور کفریات بیان کرنے والوں کی حمایت تو نہیں کی جاسکتی، البتہ سمجھانے کی کوشش کی جائے گی، ممبر حسینی کا غلط استعمال روکنے کی کوشش کی جائے گی اور ایسا کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔ اجلاس میں شریک معروف عالم دین علامہ سید اشتیاق کاظمی کا اس اجلاس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بزرگان ملت کی رہنمائی میں علماء اسلام و ذاکرین عظام کی طرف سے وحدت و یگانگت کا اجلاس کسی کی فتح و شکست نہیں، فتح ہے تو تشیع کے صاف و شفاف چہرے کی، صادق آل محمد (ع) کی صداقت کی، مسلمہ عقائد کی حقانیت کی، بزرگان ملت کی زحمتوں کی، ذاکرین عظام کی پاک نیتوں کی، منبر حسینی کے تقدس کی اور شکست ہے کفریات کی، شکست ہے انحرافات کی، شکست ہے لغویات کی، شکست ہے فضولیات کی، شکست ہے منبر حسینی سے غلط بیانات کی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اجلاس کی کارروائی اور گفتگو اس بات کا پتہ دے رہی تھیں کہ یہ ملت اتحاد و وحدت کے ساتھ آج بھی دشمن کا مقابلہ کرنے کا جذبہ اور حوصلہ رکھتی ہے۔ علماء ملت تشیع کے جرنیل اور ذاکرین عظام قلب لشکر کی حیثیت رکھتے ہیں۔
علامہ اشتیاق کاظمی کا کہنا تھا کہ مذہب تشیع کی اشاعت میں بزرگ ذاکرین کے مخلصانہ کردار کی نفی حقائق کے منافی ہے بلکہ مذہب تشیع کی اشاعت میں بزرگ ذاکرین کا بنیادی کردار ہے۔ آج بھی ذاکرین کی اکثریت لغویات و کفریات سے بیزار ہے۔ مخلص ذاکرین نے اس فضاء کو سدھارنے کی ذمہ داری لی ہے۔ یقیناً اخلاص عمل اور نیت کے تقدس کے ساتھ وہ اس اہم ذمہ داری کو ان شاء اللہ بطریقہ احسن انجام دیں گے۔ اجلاس کے بعد علامہ محمد افضل حیدری کا سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں کہنا تھا کہ علمائے کرام اور ذاکرین عظام کا یہ اجلاس کسی کی شکست اور فتح نہیں بلکہ ملت تشیع کی فتح ہے۔ تمام ارکان کمیٹی نے اتفاق کیا ہے کہ مل کر اصلاح کریں گے، بہت ہی عمدہ اور محبت کے ماحول میں گفتگو ہوئی۔ لہٰذا ایک دوسرے کا احترام کیا جائے، ایسی گفتگو سے پرہیز کیا جائے، جس سے اس اتحاد کو نقصان پہنچے۔ دشمن کبھی بھی ہمیں متحد نہیں دیکھنا چاہتا۔ جو حضرات سوشل میڈیا پر منفی تبصرے کر رہے ہیں، شاید انہیں ملت جعفریہ کی صفوں میں اتحاد و وحدت اچھا نہیں لگ رہا۔ یہ اجلاس بہت اچھا اقدام ہے۔ علماء و ذاکرین و بانیان مجالس نے انتہائی خلوص اور محبت کا مظاہرہ کیا۔ اللہ رب العزت بحق محمد و آل محمد علیہم السلام ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
مجلس وحدت مسلمین کے رہنماء علامہ محمد اقبال بہشتی نے اس حوالے سے کہا کہ ذاکرین اور ماتمی دستوں و سنگتوں کے بارے میں مجلس وحدت مسلمیں کی سالہا سال سے یہ رائے ہے کہ ان کی بعض غلطیوں کیوجہ سے ان کے خلاف محاذ قائم کرنا اور انہیں دور کرنا صحیح نہیں، کیونکہ یہ مزید قومی تقسیم کا سبب بنتا ہے، انہیں قریب کرکے ان کی اصلاح کرنی چاہیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نےاس سلسلے میں پنجاب کے ذاکرین کے نمائندوں کے ساتھ گذشتہ عرصہ میں متعدد نشستیں انجام دی ہیں، جس پر بعض حلقوں نے علامہ صاحب پر کافی اعتراض و تنقید بھی کی تھی، لیکن آج الحمد اللہ تمام بزرگ علماءِ کرام نے ایم ڈبلیو ایم اور علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے موقف کی تائید کی کہ ذاکرین کو دور نہ کریں بلکہ ان کو پاس بیٹھا کر، ان کی اصلاح کریں، ان سے بات کریں، ان کو قائل کریں، ان کو متوجہ کریں کہ ان کے پاس ممبر ہے اور ممبر پر من مرضی سے نہیں بولا جاتا، عوام کے عقائد کو بگاڑنا نسلوں کے عقائد خراب کر دے گا۔ اس پر عمل کرتے ہوئے بزرگ عالم دین کی سربراہی میں ذاکرین کرام کے ساتھ ملاقات ہوئی، ذاکرین نے اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ من گھڑت واقعات و سپنے عوام کو نہی سنایا کریں گے۔
علمائے کرام اور ذاکرین کا یہ اکٹھ بلاشبہ ایک خوش آئند اور حوصلہ افزا اقدام ہے۔ بزرگ علماء نے اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ایک انتہائی مثبت قدم اٹھایا، جس کا ذاکرین کی جانب سے بھرپور رسپانس ملا۔ اگر منبر و محراب حقیقت میں ایک ساتھ ملکر چلیں تو ملت تشیع کو بھرپور حوصلہ ملے گا اور اختلافات دور ہو جائیں گے۔ اس کے علاوہ وہ عناصر بھی آشکار ہو جائیں گے، جو اپنی نادانی میں یا دانستاً ملت کے مابین اختلافات کو ہوا دیتے ہیں۔ اس حالیہ اجلاس کے ثمرات بھی نظر آئے ہیں، جس کے بعد معروف شاعر اہلبیت (ع) شوکت رضا شوکت ایک مجلس عزاء کے دوران یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ میری تمام مجالس پڑھنے والوں سے اپیل ہے کہ ایسی غلط باتیں منبر سے بیان مت کریں، جس کی وجہ سے ہمیں عدالتوں میں یہ کہنا پڑے کہ ان باتوں کا شیعہ عقائد سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے علاوہ مولانا علی حسین قمی نے بھی ایک مجلس کے دوران اسی قسم کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس قسم کے خیالات کے اظہار سے گریز کرنا چاہیئے کہ جن کا ہمارے مذہب سے کوئی تعلق نہ ہو، غلط پڑھنے والوں کو منبر پر لانے سے روکنا ہوگا، ہم سب کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔
منبع: اسلام ٹائمز