رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کی اپنے اہل و عیال و اصحاب سمیت مدینہ منورہ سے کربلا کی طرف روانگی کی یاد میں 28 رجب کو ملک بھر میں مساجد، امام بارگاہوں و گھروں میں مجالس عزا کا اہتمام کیا گیا۔ جامعة المنتظر لاہور میں محفل دعائے کمیل میں مولانا سید محمد ظفر نقوی اور مولانا ملک محمد باقر گھلو نے تاریخ اسلام کے اس سوگوار دن کے بارے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ کے بد ترین کردار یزید بن معاویہ نے ماہ رجب 60 ہجری میں مسند نبوی پر قبضہ کے بعد مسلمانوں سے جبری بیعت لینا شروع کی تو نواسئہ رسول امام حسینؑ، مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ ابن عمر اور چند دیگر جلیل القدر صحابہ کرام نے یزید جیسے نجس کردار کی بیعت کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ مدینہ میں یزید کے نمائندہ کے اصرار کے بعد امام حسین ؑنے نانا کا شہر چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور 28 رجب 60 ھجری کو اپنے مختصر قافلہ کیساتھ نانا کی قبر پر الوداعی حاضری دے کر مکہ روانہ ہوگئے، یہ سفر چند ماہ بعد کربلا پہنچ کر ختم ہوا۔ جہاں 10 محرم 61 ھجری کو آپ نے یزیدی لشکر کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی آل و اصحاب کے ہمراہ تاریخ انسانیت کی بے مثال قربانی دی۔
علماء و خطباء نے 28 رجب کی مجالس میں امام عالی مقام کی مدینہ روانگی کا پس منظر بیان کرتے ہوئے حاکم شام معاویہ بن سفیان کی امام حسن علیہ السلام کیساتھ ہونیوالی صلح کا ذکر بھی کیا جس کے تحت معاویہ نے کسی کو اپنا جانشین نہ بنانے کا عہد کیا تھا، لیکن یزید جیسے بدترین فرد کو مسند نبوی کیلئے اپنا جانشین مقرر کرکے معاہدے کی خلاف ورزی کی۔ یزید نے اقتدار سنبھالنے کے کچھ عرصہ بعد کربلا میں خانوادہ رسالت کو المناک طریقہ سے شہید کیا اور اگلے سال مدینہ منورہ پر لشکر کشی کی جس میں مدینہ کی گلیاں صحابہ کرام کے خون سے رنگین ہوگئیں، ان کی بیٹیوں کی یزیدی لشکر نے عصمت دری کی جس کے نتیجہ میں ایک ہزار کے قریب ناجائز بچے پیدا ہوئے۔ تاریخ میں اس سانحہ کو ”واقعہ حرہ“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔/۹۸۸/ ن