رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق آستان قدس رضوی کے اسلامی تحقیقاتی فاؤنڈیشن کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین مرویان حسینی نے "اربعین ؛ حضرت امام حسین سے ادیان الہی اور اسلامی مذاہب کی محبت کی علامت "کے زیرعنوان منعقدہ کانفرنس میں کہ جو آستان قدس رضوی کے اسلامی تحقیقاتی فاؤنڈیشن کے شیخ طوسی ہال میں منعقد ہوئی ، گذشتہ برسوں کے دوران اربعین حسینی کے ملین مارچ میں لاکھوں زائرین کے اجتماع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے مسلمانوں کی عزت و شوکت کا مظہر اور حضرت سید الشہداء علیہ السلام سے محبت وعقیدت کا شاندار جلوہ قراردیا ۔
انہوں نے کہا کہ اربعین میں بلاتفریق مذہب و ملت کروڑوں افراد شریک ہوتے ہیں کہ جس میں سارے عاشق وشیدائی ایک مشترک عشق میں کربلا اور اما م حسین کے حرم کی جانب رواں دواں ہوتے ہيں اور یہ ملین مارچ موجودہ دور میں ایک خاص تمدن کا واضح مصداق ہے اگرچہ اس ملین مارچ اور اجتماع کی پہچان شیعوں کے اجتماع کے طور پر ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ عظیم الشان صرف شیعوں سے مخصوص نہیں رہ گیا ہے۔
حجت الاسلام مرویان نے مزید کہا: اربعین حسینی میں یہ توانائی پائی جاتی ہے کہ وہ انسان کو اسلامی او رانسانی زندگی کے رنگ میں پوری طرح ڈھال دیتا ہے اور نتیجے میں ہر مومن و انقلابی انسان ، انفاق اور اتفاق و اتحاد کا بہترین جلوہ پیش کرتا ہے
آستان قدس رضوی کے اسلامی تحقیقاتی فاؤنڈیشن کے سربراہ نے اربعین کو ایک عظیم اور گرانقدر تمدن اور تحریک قراردیا اور کہا کہ اس تحریک کے تمدن ساز ہونے کی وجہ سے ہی سامراجی طاقتیں اپنے ذرائع ابلاغ کو اس بات پر مجبور کرتی ہیں کہ اربعین ملین مارچ کی خبروں کو سینسر کرکے اس کوایک معمولی واقعہ کے طور پر ہی پیش کریں اور یہ سامراجی طاقتیں اربعین ملین مارچ کی راہ میں مشکلات پیدا کرنے اور بدامنی کے واقعات اور افواہیں پھیلا کر اربعین کا راستہ روکنے کی کوشش کرتی ہیں
انہوں نے کہا کہ اس عظیم مشن اور مارچ کو روکنے کی سامراجی طاقتوں کی تمام تر سازشوزں اور ہتھکنڈوں کے باوجود یہ وہ راستہ ہے جو خدا وندعالم نے کھولا ہے اور اس راستے پر اٹھنے والے قدم امام آخرالزمان اور منجی عالم بشریت کے ظہو رکی جانب رواں دواں ہيں
آستان قدس رضوی کے اسلامی تحقیقاتی فاؤنڈیشن کے سربراہ نے دفاع مقدس کے دوران عراقی شیعوں کی کوششوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ عراق میں بعث پارٹی کی حکومت کے دور میں بھی بہت سے شیعہ اور عاشقان اہل بیت علیہم السلام ہر طرح کے خطرات کے باوجود اربعین کے موقع پر حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے پیدل کربلائے معلی جاتے تھے تاکہ اس تحریک کا چراغ خاموش نہ ہونے پائے ۔