رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے نائب صدر علامہ سید نیاز حسین نقوی نے علی مسجد ماڈل ٹاﺅن لاہور میں خطبہ جمعہ میں کہا کہ یزید ہی امام حسین علیہ السلام کا قاتل ہے، جس نے نواسہ رسول کا سرقلم کرنے کا تحریری حکم دیا اور افسوسناک بات ہے کہ اب کچھ بے علم علماء اس کی حمایت میں بیانات دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک یزید پر لعنت کرنے اور اسے کافر قرار دینے میں بعض علماء کے سکوت اور احتیاط کا تعلق ہے، فقہی و دینی لحاظ سے اِس کی کوئی دلیل نہیں۔ قرآن مجید میں 73 مرتبہ لعن کا لفظ آیا ہے اور احادیث میں یہ لفظ 300 سے زیادہ استعمال ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جن پر لعنت کی ہے اُن میں جھوٹ بولنے والے، ظالم، منافق اور کفار وغیرہ ہیں۔ اِسی طرح پیغمبر اکرم کو اذیت دینے والوں پر بھی اللہ نے قرآن مجید میں لعنت بھیجی ہے۔ کیا یزید اِن جرائم کا مرتکب نہ تھا؟ تمام علماء اسلام متفق ہیں کہ یزید نے مکہ و مدینہ کو تاراج کیا، مدینہ میں 700 حافظان ِ قرآن کو شہید کیا، سینکڑوں مسلمان عورتوں کی عصمت دری کی، مسجد ِ نبوی میں گھوڑے باندھے، قتل ِ حسین جیسے سنگین ترین جرم کا مرتکب ہوا، اِس کے باوجود بھی کیا وہ لعنت کا مستحق نہیں؟
انہوں نے کہا کہ یزید کا کفر بھی ثابت ہے۔ قرآن میں جس قسم کے افراد پر لعنت کی گئی ہے اُن کے جرائم کی سنگینی یزید کے جرائم سے بہت ہی کم ہے تو پھر یزید پر لعنت کرنے میں سکوت و احتیاط کا کیا مطلب ہے؟ جب پیغمبر اکرم نے قتل حسین کی خبر دیتے ہوئے یزید پر لعنت کی تھی تو اُن کے دین کے پیروکار کسی عالِم کی اِس بارے کسی دوسری رائے کی کیا حیثیت ہے؟ علامہ نیاز نقوی نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا امام حسین ؑ کے چہلم پر عراق جانیوالوں کیلئے ویزہ کا مسئلہ حل کرنے پر شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ یزید بن معاویہ کے حوالے سے اہل تسنن کے اکثر علماء اور شیعہ مسلک کے علماء کی بالاتفاق رائے ہے کہ وہ تمام رزائل و خباثتوں کا مجموعہ تھا۔ بعض نام نہاد مسلمان یزید کا دفاع اور حمایت بھی کرتے ہیں جن کو سمجھانا اور جواب دینا ضروری نہیں۔ اُن کیلئے یہی دعاء ہے کہ ان کا انجام و حشر یزید کیساتھ ہو۔ البتہ اسلامی مسالک کے بعض علماء معلومات کی کمی یا کسی وجہ سے کوئی ایسی بات کہیں جس سے یزید کی حمایت کا پہلو نکلتا ہو تو اس کا جواب دینا ضروری ہے تاکہ ان کی غلط فہمی کا بھی ازالہ ہو اور لوگ بھی متوجہ ہوں کہ اِس طرح کی باتوں کا درست جواب موجود ہے۔
علامہ نیاز نقوی نے کہا کہ گذشتہ دنوں ایک ایسی ہی شخصیت نے یزید کے حوالے سے چند متنازعہ باتیں کی ہیں جن کا جواب دینا ضروری ہے۔ جنہوں نے اصرار کیا تھا کہ تاریخی شواہد سے ثابت نہیں کہ یزید نے امام حسین ؑکے قتل کا حکم دیا ہو۔ دوسرا یہ کہ یزید پر لعنت اور اس کے کفر کے بارے بعض علماء نے سکوت اختیار کیا ہے۔ علامہ نیاز نقوی نے کہا کہ اہلسنت کی معتبر کتب البدایہ والنہایہ، کامل ابن اثیر، تاریخ یعقوبی، انساب الاشراف، مقتل خوارزمی وغیرہ میں موجود ہے کہ یزید نے امام حسین ؑ کے قتل کیلئے اپنے خطوط میں انتہائی سختی برتنے، کوئی مہلت نہ دینے کا لکھا تھا نیز ایک خط میں واضح حکم تھا کہ حاکم مدینہ، امام حسین ؑ اور عبداللہ ابن زبیر کو طلب کرے، ان سے بیعت لے، انکار کی صورت میں ان کی گردنیں اُڑا کر سر یزید کی طرف بھیجے۔ گورنر کوفہ عبیداللہ ابن زیادنے کربلاء میں امام حسین ؑ کے نام اپنے خط میں یہی لکھا تھا کہ اُسے یزید کی طرف سے بیعت لینے یا آپ ؑکو قتل کرنے کا حکم ہے۔
انہوں نے کہا کہ رسول اکرم نے امام حسین ؑکی ولادت کے بعد جب آپ کے قتل کی خبر دی تو واضح طور پر یزید کا نام لیا اور اس پر لعنت کی ۔حاکم مدینہ ولید بن عتبہ نے جب امام حسین ؑ کو بیعت کیلئے بلایا تھا تو وہاں مروان نے بھی یزید کے حکم کے مطابق یہی کہا تھا کہ امام حسین ؑ کو قتل کر دو۔ ان کا کہنا تھا کہ 10 محرم کے بعد جب اسیرانِ کربلاء دربارِ یزید میں پیش ہوئے تو وہاں رسول اکرم کی نواسی حضرت زینب ؑ اور امام سجاد ؑ نے بھی یزید کو قاتل قرار دیا۔ امام حسین ؑ کا سرپیش کرنے پر یزید نے عبید اللہ ابن زیاد کو اِس سنگین ترین جرم پر شاباش دی، انعامات دیئے، رات کو اُسے اپنے گھر لے گیا جہاں شراب نوشی کی گئی اور جشن منایا گیا۔ تاریخی ثبوت کے علاوہ 14 صدیوں سے تمام مسلمانوں میں بھی عام شہرت ہے کہ امام حسین ؑ کا قاتل یزید ہے۔/۹۸۸/ن