رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق، حوزہ علمیہ قم میں مقیم ہندوستان کے مختلف صوبوں سے تعلق رکھنے والے علماء و طلاب نے قم مقدسہ میں اپنے ملک کے تئیں اپنی وفاداری کو ثابت کرتے ہوئے NRC اور CAA کے خلاف زبردست احتجاج کیا ہے ۔
اس رپورٹ کے مطابق، مدرسہ مرعشیہ قم کے میں علماء و طلاب ہندوستان کی جانب سے رکھے گئے احتجاجی جلسہ میں قم اور اس کے مضافات کے علاقوں میں رہائش پذیر طلباء نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، نماز مغربین کے بعد سے ہی مدرسہ مرعشیہ کے ہال میں لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے جلسہ کا وقت آتے آتے ہال میں طلباء کی کثیر تعداد اکھٹا ہو چکی تھی ۔
احتجاجی جلسہ کا آغاز حوزہ علمیہ قم کے طالب علم و ممتاز قاری قران حجۃ الاسلام سید جواد رضا رضوی کی دلنشین تلاوت کلام پاک سے ہوا اور تلاوت کلام اللہ کے بعد احتجاجی جلسے کے نظم و انصرام کی باگ ڈور ہاتھوں میں سنبھالے ہوئے جلسہ کے ناظم حجۃ الاسلام والمسلمین حیدر عباس رضوی صاحب نے مختصر طور پر جلسہ کی اہمیت و ضرورت پر روشنی ڈالی اور پھر احتجاجی جلسہ کے پہلے مقرر ہندوستانی طلاب کے درمیان جانے مانے قلمکار و شاعرجواں سال عالم جناب حجۃ الاسلام والمسلمین عابد رضا رضوی نوشاد صاحب کو ڈائس پر آنے کی دعوت دی ۔
NRC اور CAA ملک کی سالمیت کیلئے نقصان دہ اور آئین ہند کے خلاف ہے
حجۃ الاسلام والمسلمین عابد رضا رضوی نے اپنی پر مغز تقریر میں NRC اور CAA پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: یہ دونوں قانون ملک کی سالمیت اور اتحاد کے لئے نقصان دہ ہیں اور شہریت ترمیمی قانون مکمل طور پر آئین ہند کے خلاف ہے ۔
انہوں نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ آئین ہند میں تمام مسالک و ادیان کے ماننے والوں کو حقوق میں برابری دی گئی ہے اور کسی قسم کی تبعیض روا نہیں رکھی گئی ہے، کہا: اگر چہ ان قوانین کا اصل نشانہ، مسلمان ہیں تاہم ہمارا ماننا ہے کہ یہ مسلمانوں پر نہیں بلکہ مکمل ہندوستان اور ہندوستانیوں پر حملہ ہے جسے کسی صورت تسلیم نہیں کیا جاسکتا، اس لئے کہ ہمیں اپنے ملک عزیز ہندوستان سے محبت ہے اور ہم اس کی سالمیت، خوشحالی اور اتحاد کے خواہاں اور محافظ ہیں ۔
حوزہ علمیہ قم کے معروف قلمکار نے یہ کہتے ہوئے کہ انہیں بنیادوں پر تمام جمہوریت نواز اور انصاف پسند شخصیات، تنظیمیں اور ملک بھر کا دانشور طبقہ اور یونیورسٹیز کے طلاب بلا تفریق مذہب و ملت اس آئین مخالف قانون کے مقابلہ میں صف بستہ نظر آرہے ہیں اور صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں کہا: اسلامی تعلیمات کے مطابق مظلوم کی حمایت اور ظلم کی مخالفت ہمارا انسانی و اسلامی فریضہ ہے لہذا ہم بھی صرف مسلمانوں کے حق کی بات نہیں کرتے بلکہ ان تمام قوموں کے حقوق کے مدافع ہیں جو فاشیسٹ طاقتوں کے ظلم کا نشانہ ہیں، چاہے وہ دلت ہوں یا آدیواسی یا کوئی اور قوم ۔
انہوں نے موجودہ حکومت ہند کو خطاب کرتے ہوئے اپنے مطالبہ کے طور پر کہا: ہندوستان کے شہریوں کے تمام تر حقوق کو بغیر کسی جانبداری اور مذہبی تفریق کے تحفظ فراہم کرے اور آئین ہند کے وقار کو ملحوظ رکھے ۔
مولانا موصوف کی تقریر میں بارہا جلسہ میں شریک طلاب و افاضل نے جذباتی نعرے لگاتے ہوئے اپنی حق پرستی و ملک دوستی کا اظہار کیا ۔
NRC اور CAA سے لاکھوں ہندوستانی ہندووں کی شہریت اور ثقافت کو خطرہ ہے
اس جلسہ کے دوسرے مقرر ہندوستان کی سرزمین کے ممتاز دانشور و درد مند عالم و تجزیہ نگار حجۃ الاسلام والمسلمین جناب عاکف علی زیدی کو شہریت کے قانون کے ترمیمی بل کی تشریح و توضیح کے ساتھ اپنا نقطہ نظر رکھنے کی دعوت دی گئی ۔
حجۃ الاسلام والمسلمین جناب عاکف علی زیدی نے مختصر سے وقت میں نظر نہ آنے والے کئی اچھوتے پہلووں کو اجاگر کرتے ہوئے مختلف زاویوں سےاس بل کے پر روشنی ڈالی ۔
انہوں نے تقریر کی تمہید میں ۲۰۱۴ء کے بعد سے سلسلہ وار طور پر ان مسائل کو بیان کیا جو ۲۰۱۴ء کے الیکشن کے بعد سے ہی بے جے پی کے منشور میں شامل تھے چنانچہ حکومت میں آتے ہی حکمراں جماعت نے اپنے کئے گئے وعدوں پر عمل کرنا شروع کر دیا تھا ۔
زیدی صاحب نے بی جے پی کے ایجنڈوں کو بیان کرتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ یوں تو اس سے قبل بھی یہ بل پاس ہو چکا تھامگر ایوان بالا میں اسے مکمل حمایت نہ مل سکی جسکی وجہ سے اسکا نفاذ عمل میں نہ آ سکا تھااس کے بعد س ۲۰۱۹ ء میں ایک بار پھر یہ معاملہ انتخابی منشور کا حصہ بنا۔
سرزمین ہندوستان کے ممتاز دانشور نے اپنے بیان میں کہا: اس بار یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ NRC کو لانے سے پہلے CAA کو لے کر آئے تاکہ ان مشکلات سے بچ سکیں جو آسام میں اس پہلے ہوئی تھیں اور جنکی بنیاد پر لاکھوں ہندووں کی ہندوستانی شہریت خطرے میں پڑ گئی تھی ۔
حجۃ الاسلام والمسلمین زیدی نے مزید کہا کہ لوک سبھا کے دوسرے الیکشن میں گرچہ بے جے پی نے اس پر بہت زور نہیں دیا اور بات آسام و بنگال تک ہی محدود رہی، البتہ آسام میں یہ ضرور ہوا کہ ۱۹ لاکھ شہری غیر قانونی قرار دئے گئے جس کی وجہ سے مسلمانوں اور دیگر مذاہب و ادیان کے ماننے والوں میں زبردست تشویش پیدا ہوگئی تھی کیونکہ اس کام کے انجام دہی کے مراحل بہت اذیت ناک تھے لہذا عام لوگوں کو بہت پریشانی اٹھانی پڑی، لوگوں پرڈیپریشن طاری ہوا، کچھ لوگ مریض ہوئے کچھ نے خودکشی کرلی کئی خاندن NRC کی مار نہ جھیل کر برباد ہو گئے ۔
انہوں نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ دسمبر ۲۰۱۹ ء میں دوبارہ اس قانون کو پاس کرایا گیا، اس قانون کا اجمالی جائزہ لیتے ہوئے کہا: اگر ہم اس قانون کو دیکھیں تو اس کا مضمون یہ ہے کہ ''اس قانون سے پہلے تک اگر کوئی ہندوستان میں آکر ہندوستانی شہریت حاصل کرنا چاہتا تھا تو اسے گیارہ سال یہاں رکنا پڑتا تھا اور دوسری شرط یہ تھی کہ گیارہ سال کی مدت میں اس کی رہائش قانونی ہو لیکن جو ترمیم ہوئی ہے اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے گیارہ سال کا عرصہ چھ سال میں بدل دیا گیا تاکہ غیر مسلموں کو شہریت دینے کا کام اور بھی آسان ہوسکے چنانچہ اس قانون میں ترمیم کی کے بعد وہ لوگ جو پاکستان، افغانستان و بنگلادیش کے پناہ گزین ہیں اگر وہ مسلمان نہیں ہیں تو چاہے وہ غیر قانونی طور پر ہی کیوں نہ رہ رہے ہوں انہیں شہریت دی جائے گی ۔
حجۃ الاسلام والمسلمین زیدی نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا: اس قانون کے تحت جو چیز فوری طور پر عمل میں آئے گی وہ ۲۵ سے تیس ہزار تک کے تعداد کی شہریت کی منظوری ہے البتہ یہاں بات صرف ۲۵ سے ۳۰ ہزار تارکین وطن کی نہیں جنہیں ہندوستانی شہریت دی جائے گی اگر بات صرف ۲۵ سے تیس ہزار لوگوں کو ہندوستانی شہریت کی ہوتی تو اس میں کوئی بڑی بات نہیں تھی اور کسی کو یہ محسوس بھی نہیں ہوتا اور جتنا ہنگامہ ہوا اس کی بھی ضرورت نہیں تھی ۔
انہوں نے اس بل کے بعد جو کچھ ہنگامہ آرائی ہوئی اسکی ایک اجمالی فہرست بتاتے ہوئے کہا: شمال مغرب میں زبردست مظاہرے رہے پھر بنگال میں مظاہرے ہوئے اور بل کے خلاف ریلیاں نکلیں اور گزشتہ جمعہ کے دن سے پھر آہستہ آہستہ مسلمانوں نے بھی کھل کر مخالفت کا اعلان کیا اور وہ سڑکوں پر نکل آئے ، گزشتہ اتوار سے دیکھنے کو ملا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی اور علی گڑھ میں طلباء کے احتجاج کو طاقت کے بل پر دبانے کی کوشش کی گئی اور ان دو مقامات پر ہونے والی بربریت کی خلاف دیگر یونیورسٹیز و کالجز میں مظاہرے ہوئے اور وہ بھی ان جگہوں پر جہاں صرف مسلمان ہی مظاہروں میں شامل نہیں تھے بلکہ سبھی لوگ تھے ، کیرل میں بھی مظاہرے ہوئے ۔
حجۃ الاسلام والمسلمین زیدی نے اپنے بیان میں ایک اہم بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا: جہاں پر بھی بی جے پی کی حکومت نہیں ہے وہاں ان مظاہروں میں تشدت آمیز واقعات نہیں دیکھنے کو مل رہے ہیں اور ان علاقوں میں ہونے والے مظاہرے پر امن ہیں لیکن جہاں بی جے پی کی حکومت ہے وہاں پر تشدد ہو رہا ہے اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ تشدد کی بنیاد اور سرچشمہ کیا ہے؟
انہوں نے ان مظاہروں کی نوعیت کا جائزہ لیتے ہوئے کہا: صرف یہ مظاہرے ملکی پیمانے پر ہی نہیں ہوئے بلکہ عالمی پیمانے پر بھی یہ رد عمل دیکھنے کو آیا کہ مختلف ممالک کے عہدے داروں نے اپنے دوروں کو رد کردیا حتی اقوام متحدہ میں بھی اس بل کو لیکر خدشات کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا ہے کہ اس طرح سے بہت سے لوگ کسی بھی ملک کے شہری نہیں رہیں گے اور یہ آج کے نظام کی بڑی مشکل بن جائے گی ، کون سا ملک انہیں قبول کرے گا، کون انہیں شہریت دے گا۔
حوزہ علمیہ قم کے اس مشھور اسکالر نے اپنی تقریر کے آخری حصہ میں بل کے بعد سے ہونے والے رد عمل کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا: اس ترمیمی قانون میں اگر۳۰ چالیس ہزار کو شہریت مل رہی ہے تو اتنی سی بات کو لیکر اتنے بڑے پیمانے پر ہنگامے کیوں ہیں اسکو ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے ، ہندوستان کے شمال مشرقی علاقوں جیسے آسام میں تقریبا سو سال کی تاریخ ہے کہ وہاں دوسرے علاقوں سے دیگر ممالک کے لوگ آکر بس رہے ہیں اور انکی ایک بڑی تعداد ہے اسی بنا پر وہاں کی سیاست اسی مسئلہ کو لیکر گھوم رہی ہے لہذا وہاں پر اونچی ذات کے ہندووں کو لگتا ہے کہ اس سے انکے کلچر کو نقصان ہوگا اور یہ بات ۳۰ چالیس ہزار لوگوں کی نہیں ہے بلکہ دیگر ممالک سے لوگ اور بھی آئیں گے چونکہ ایک باب کھل جائے گا اور لوگ افغانستان و پاکستان و بنگلادیش سے یہاں داخل ہونا شروع ہوں گے، تو یہاں کے باشندوں کی تہذیب متاثر ہوگی ۔
انہوں ںے اس بل کی مسلمانوں کی جانب سے مخالفت کی وجہ بتاتے ہوئے بیان کیا: مسلمانوں پر اسکا زیادہ ہی اثر پڑے گا اسی بنا پر مسلمان بھی مظاہرہ کر رہے ہیں اور ان مسلمانوں کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی ہیں جو بی جے پی کی تفرقہ انگیز و نفرت پھیلانے والی سیاست کے خلاف ہیں وہ بھی احتجاج و مظاہرے میں شریک ہیں وہ لوگ بھی مسلمانوں کے ساتھ شامل ہیں جو چاہتے ہیں سارے مذاہب کے لوگ مل جل کر محبت و امان کے ساتھ رہیں، ایسے ہندو بھی شریک ہیں جو بی جے پی کی سیاست کو پسند نہیں کرتے ہیں اس لئے کہ اس سے پہلے این آرسی کو بہت ہی دردناک انداز میں انجام دیا گیا تھا اور اب اندازہ ہے کہ پورے ملک میں اسے نافذ کیا جائے گا، اس بات کی وجہ سے اب ڈر ہے کہ سالہا سال ذلیل کرنے کے بعد ہزاروں اذیتیں پہنچانے کے بعد لوگوں کی شہریت کو منسوخ کیا جائے گا اور پھر غیر مسلمانوں کے لئے ایک راستہ کھول دیا جائے گا جسے سی اے اے کہتے ہیں اس کے ذریعہ انہیں دوبارہ شہریت مل جائے گی یہ راستہ صرف مسلمانوں کے لئے بند ہوگا اب مسلمان یہ دیکھ رہے ہیں کہ انہیں ملک سے نکال باہر کیا جائے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی ایک بڑی تعداد کو بنائی ہوئی جیلوں میں یا کیمپوں میں ڈال دیا جائے گا جہاں ان کی حیثیت غلاموں جیسی ہوگی ، ممکن ہے کچھ لوگوں کو شہریت مل جائے لیکن جنہیں شہریت ملے گی انہیں بھی بڑی اذیتوں سے گزرنا پڑے گا اوراس کے ذریعہ ایسے ظلم کی تاریخ رقم ہوگی جس کے سامنے گجرات ، بابر ی مسجد کے دنگے سب کے سب پھیکے پڑ جائیں گے اور ایک افراتفری کا ماحول ہوگا لہذا وہ ہندو بھی مسلمانوں کے ساتھ اتر آئے ہیں جو انصاف پسند ہیں اور ملک سے محبت کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک چھوٹی سی قانونی ترمیم کو لیکر اتنے وسیع پیمانے پر غم و غصے کا اظہار دیکھنے کو مل رہا ہے ۔
حکومت، مسلمانوں کو بہانا بنا کر پوری قوم اور ملک کو نیست ونابود کرنا چاہتی ہے
اس جلسہ کے تیسرے مقرر حجۃ الاسلام والمسلمین سید مراد رضا رضوی نے جوشیلے انداز میں ملک میں ہونے والی سازش کو بے نقاب کرتے ہوئے کہا: ہم ہرگز اپنے خلاف ہونے والی سازشوں پر خاموش تماشائی نہیں بنیں گے بلکہ اپنے حق کا خود دفاع کریں گے ۔
انہوں نے اپنی تقریر میں اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ آج قم کی سر زمین سے یہ پیغام جارہا ہے کہ انسانیت کی حفاظت کے لئے قم کا حوزہ ہمیشہ میدان میں رہا ہے اور رہے گا، مظلوموں کی حمایت قم والوں کا پیغام ہے، انسانی اور اسلامی اتحاد پر زور دہتے ہوئے کہا: ظالم حاکم زیادہ دن باقی نہیں رہتے، یہ بل بہانہ ہے، یہ بل مسلمانوں کے خلاف ہے، یہ بل اصل میں انسانیت کے خلاف ہے، یہ مذہب کے نام ہر ہندوں کے لباس میں ہندوستان کے امن وامان کو غارت کرنا چاہتے ہیں، لہذا ان ملک کے غداروں اور اسرائیل کے اشاروں پر چلنے والے دہشت گرد ٹولے سے مقابلہ ضروری ہے .
سرزمین ہندوستان کے مشھور مقرر نے ہندوستان کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: حکمراں جماعت میں ایک اپ ہی سنجیدہ سمجھے جاتے ہیں ، لیکن اپ نے بھی اصول کا سودہ کرلیا، اپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ پڑوسی مسلمان ممالک میں قتل ہونے والے مذہب کے نام پر ہی قتل ہوئے ہیں ۔
انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کو بہانا بنا کر یہ پوری قوم کو نیست ونابود کرنا چاہتے ہیں، لہذا احتجاج اور قانونی چارہ جوئی کے ذریعے ان لوگوں کی دہشت گردی سے مقابلہ ضروری ہے، اتحاد ضروری ہے کہا: اقلیتوں کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہئے اسے ان لوگوں کو حضرت علی علیہ السلام سے سیکھنا چاہئے،علماء اور عمائدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان لوگوں کی چال کا پردہ فاش کریں تاکہ ہمارے ہندو بھائیوں کو بھی معلوم ہو جائے کہ یہ انسانیت کے دشمن ہیں اور صہیونیوں کے ہاتھوں ہندوستان کو بیچنا چاہتے ہیں، جس حکومت کی پولیس لائبریری میں بے دریغ حملہ کرے وہ درندہ ہے، اسےحکومت کرنے کا حق کہاں جو بیٹی کو بے دردی سے مارے، اس کا بیٹی پڑھانے کا نعرہ جھوٹا ہے ۔
ہم اپنی شہریت تشتری میں سجا کر ان کے حوالے نہیں کردیں گے
اس احتجاجی جلسہ کے آخری مقرر حجۃ الاسلام والمسلمین سید رضا حیدر زیدی نے بڑے ہی سنجیدہ و متین انداز میں یہ کہتے ہوئے کہ ہمیں حالات سے گھبرانے کی ضرورت نہیں بلکہ حالات کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے، ہمارا امام وقت ہمارے اعمال کا نگراں ہے وہ ہمارا محافظ و نگہبان ہے بس ہمیں اسکی راہ پر چلنا ہوگا، شہریت ترمیم بل کے پہلوون کی طرف اشارہ کیا اور کہا: یہ وہ واقعہ ہے جس سے الحمد للہ ایک بیداری آئی ہے اور یہ آئین ہندوستان کو تباہ کر نے کی سازش ہے، مسلمانوں کے خلاف سازش ہے، لیکن کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم ہندوستان میں ڈر اور خوف سے رہیں گے بلکہ ہم حق کا دفاع کرنا جانتے ہیں اور تمام انسانوں کے ساتھ اس مسئلہ میں بلا تفریق مذہب و ملت ہم شریک ہو کر مل جل کر احتجاج کریں گے ۔
انہوں ںے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں پولیس کی بربریت کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور علی گڑ و جامعہ کے زخمی طلاب کے حق میں دعاء کی اور کہا: ہم ان مظلوموں کے ساتھ ہیں۔
حجۃ الاسلام والمسلمین زیدی نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ ہم اس ملک کا ایک حصہ ہیں، ہم دشمنوں کو اپنی شہریت تشتری میں سجا کر ان کے حوالے اتنی آسانی سے نہیں کردیں گے کہا: ہم سبھی خدا کی ذات پر بھروسہ رکھیں اور سازشوں سے ہوشیار رہیں انشاء اللہ کامیابی ہماری ہوگی ۔
پروگرام کے اختتام میں طلاب ہندوستان کی جانب سے میمورنڈم پیش کیا گیا جسے حجۃ الاسلام والمسلمین جناب سید نجیب الحسن زیدی صاحب نے پڑھا اور حاضرین جلسہ نے نعرہ تکبیر کے ذریعہ اس کی حمایت کا اعلان کیا۔
واضح رہے یہ میمورنڈم تہران میں ہندوستان سفارت خانے کے ذریعہ ہندوستان کے صدر جمہوریہ تک پہنچایا جائے گا۔ /۹۸۸/ ن