رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پولیس کی دہشت گردی کی سب سے خوفناک تصاویر اور ویڈیو فوٹیج مظفرنگر کے کھالہ پار محلے کی ہے جہاں پولیس اہلکاروں نے گھروں میں گھس کر جم کر لوٹ مار اور توڑ پھوڑ کی ہے۔
رات کے اندھیرے میں پولیس اہلکاروں نے پہلے سی سی ٹی وی کیمروں کو توڑا، گھروں کے دروازے توڑے اور پھر سیکڑوں کی تعداد میں گھروں میں گھس کر لوٹ مار کی اور گھر میں موجود ہر شخص کو لاٹھی، ڈنڈوں، بندوقوں کی بٹوں اور لوہے کی راڈوں سے بے رحمی سے زد و کوب کیا اور وہاں پر موجود ہر چیز کو توڑ پھوڑ کر مردوں کو اپنے ساتھ اٹھا لے گئے۔
پولیس اہلکاروں نے درجنوں گھروں میں موت کا رقص کیا اور گھروں میں موجود بوڑھوں، خواتین حتی بچوں پر بھی رحم نہیں کیا۔
دوسری جانب صوبے کے وزیر اعلی یوگی ادیتیہ ناتھ بارہا یہ دھمکی دے رہے ہیں کہ مظاہروں کے دوران عمومی یا پرائیویٹ اثاثوں کو جو بھی نقصان پہنچا ہے، اس کی تلافی مظاہروں میں شامل افراد کے اثاثے ضبط کرکے کی جائے گی۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یوپی پولیس اور سنگھی دہشت گردوں کے اس دہشت کی کون تلافی کرے گا؟ جنہوں نے بغیر کسی نوٹس یا عدالتی اجازت کے بغیر آدھی رات کو گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی ہے اور لوگوں کی جانیں لی ہیں اور بچوں، خواتین اور مردوں کو خوفزدہ کیا ہے اور انہیں ذہنی اذیتیں دی ہیں۔
آج تک دنیا نے فلسطین سے آنے والی پولیسیاں دہشت گردی اور وحشی پن کی ایسی تصاویر دیکھی تھیں لیکن دونوں کے درمیان ایک فرق ہے۔ اسرائیلی فوجی فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرتے ہیں، گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ اور زد و کوب کرتے ہیں لیکن گھروں میں رکھی قیمتی اشیاء کو چراتے نہیں ہیں۔
مظفرنگر، میرٹھ، کانپور، لکھنو، بجنور اور اترپردیش کے ديگر علاقوں میں اس مظالم پر ملک کا مین اسٹریم میڈیا تو روایت کے مطابق آنکھیں بند کئے ہوئے ہے اس لئے ہر انصاف پسند پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو اس ظلم اور پولیس کی دہشت گردی کا انکشاف کرے اور لوگوں تک مظلومین کی آواز پہنچائے۔
عوام کو بھی بیدار ہونا ضروری ہے اور متحد ہوکر مستقبل میں پولیس اور انتہا پسند سنگھی دہشت گردوں کے اس ظلم اور مظالم کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنی حفاظت آپ کی بنیاد پر کوئی راہ حل تلاش کرنا ہوگا۔