رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اتحاد امت فورم کے تحت امریکا مردہ باد کانفرنس کا انعقاد اسلام آباد پریڈ گراونڈ میں کیا گیا۔
اس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امت واحدہ کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی کا کہنا تھا کہ قاسم سلیمانی وہ شخصیت تھے، جنہوں نے اسلام کے لیے چالیس سال جدوجہد کی اور یوں عالم اسلام کے بچے بچے کے دل میں ان کے لیے ہمدردی پیدا ہوگئی، جس کا نتیجہ آپ اس اجتماع میں مشاہدہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قاسم سلیمانی اور ابو مہدی مہندس اسلام کے وہ ہیروز ہیں، جنہوں نے افغانستان، عراق، یمن، شام، لبنان اور فلسطین میں دین کے پرچم کو بلند رکھنے کے لیے جدوجہد کی، تاہم انہوں نے عراق اور شام میں امریکی نواز داعشیوں کا قلع قمع کیا اور امریکا کی مشرق وسطیٰ پر قابض ہونے کے لیے بنائی جانے والی پالیسیز کو بھی ناکام بنا دیا۔
انہوں نے کہا قاسم سلیمانی اور ابو مہدی مہندس ایران اور عراق کے ہیروز نہیں ہیں، بلکہ اسلام کے ہیروز ہیں اور ہیروز کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، اس لیے آج ہم یہاں ان عظیم شہداء کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔
یاد رہے قاسم سلیمانی کو القدس کے بریگیڈ کے سربراہ کے طور پر نہ دیکھیں بلکہ قاسم سلیمانی کو اسلام کے ہیرو کے طور پر دیکھا اور سمجھا جائے، کیونکہ قاسم سلیمانی اللہ کے دشمنوں پر قہر بن کر بجلی کی طرح ٹوٹ پڑتے تھے، وہ اللہ کے ایک ایسے مجاہد تھے، جو اللہ کے دین کے خلاف لڑنے والی طاغوتی طاقتوں سے مقابلہ کر رہے تھے، لہٰذا پوری دنیا آج قاسم سلیمانی کو خراج عقیدت پیش کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مجھے یہ دیکھ کر خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ آج اس اجتماع میں نہ صرف اہل تشیع نے بلکہ اہل سنت نے بھی شرکت کی ہے اور یہ واضح ثبوت ہے کہ قاسم سلیمانی کی شخصیت آفاقی تھی اور اس آفاقی شخصیت کے لیے آج ہم یہاں جمع ہوئے ہیں اور مرد باد امریکا اور مرد باد اسرئیل کے نعرے لگاتے ہوئے دشمن کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ تم ہمیں جتنا بھی تقسیم کرنا چاہو، لیکن ہم اپنے دین اور اپنے ہدف کے لیے اکٹھے تھے اور اکٹھے رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ قاسم سلیمانی کی شہادت ایک نوید ہے اسلامی معاشرے کی مزید بیداری کے لیے۔ اس خون نے ایران کو ایک دفعہ پھر زندہ کیا، انقلاب کو ایک دفعہ پھر زندہ کیا ہے۔
عراق میں موجود موومنٹ کو ایک دفعہ پھر زندہ کر دیا ہے، شام کے مجاہدین کو ایک دفعہ پھر زندہ کیا ہے، لبنان کی گلیوں اور شہروں میں بسنے والے مجاہدین کو ایک نئی حیات عطا کی ہے۔ فلسطین کی سرزمین میں بسنے والے ان مجبور و مظلوم مجاہدین کو ایک نیا جذبہ عطا کیا ہے۔ اب ہمارے بچے اور ہمارے جوان دشمن کو قاسم سلیمانی نظر آئیں گے۔
علامہ محمد امین شہیدی نے کہا کہ آج پوری دنیا کے اندر امریکا اپنی ریشہ دوانیوں، اپنی عیاریوں، مکاریوں اور میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈہ کر رہا ہے اور کمزور ایمان کے حامل لوگوں اس سے متاثر بھی ہوئے ہیں، جس کا مظاہرہ آپ دنیا میں مسلم ممالک کے اندر دیکھتے ہیں۔ امریکا کے اسلحے سے متاثر ہو کر سعودیہ نے امریکا سے صدی کی سب سے بڑی ڈیل کر دی، لیکن سعودیوں کا یہ اسلحہ چند ہزار حوثی مجاہدوں کا بھی مقابلہ نہیں کرسکا، کہاں گیا سعودیوں کا وہ اسلحہ اور اس اسلحے کی تاثیر۔
انہوں نے مزید کہا کہ مسلم دنیا کو چاہیئے کہ وہ امریکا کے اسلحے سے نہ ڈریں ان کے پروپیگنڈے سے نہ ڈریں، اپنی قوت کو پہچانیں، مسلم معاشرے کے اندر موجود پوٹنشنل کو پہچانیں، تاکہ اسلام کا قلعہ مضبوط ہو جائے۔ پاکستان ایک اہم ملک ہے، پاکستان کو اللہ نے تمام نعمتوں سے نوازا ہوا ہے، جس چیز کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ اپنی قوت پر اعتماد کریں، اپنے سرمائے پر اعتماد کریں، یہ بات ذہن میں بٹھا لیں کہ بھوک شکست کا باعث نہیں بن سکتی، لیکن امریکا پر انحصار کرنا شکست کا باعث بن سکتا ہے۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے اداروں میں امریکی ایجنٹس بیٹھے ہوئے ہیں اور ہماری پالیسیز پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ ہم ایک آزاد ملک ہیں، ہمیں خود مختار رہنا چاہیئے۔
انہوں نے کہا پاکستان کی تاریخ میں پاکستانی قوم کو کبھی بھی ایسی شرمندگی نہیں ہوئی، جو ماضی قریب میں سعودیہ اور یو اے ای سے ڈالر لینے کے بعد ان کی فرمانبرداری کرنے سے ہوئی ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ سعودیہ اور یو اے ای جو خود امریکا کے چوکیدار اور اردلی کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ پاکستان جیسے ایٹمی اور عظیم ملک کو ہدایت دیتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر پاکستان کے لیے کوئی اور ذلت نہیں ہوسکتی اور یہ ذلت ہمارے دو قومی نظریئے کی بھی نفی ہے۔ پاکستان اگر دو قومی نظریئے کے تحت وجود میں آیا ہے تو پھر اسکا مطلب یہ ہوا کہ مسلمانوں کی حکمرانی، مسلمانوں کی حکمرانی کا مطلب اللہ کی حکمرانی، قرآن کی حکمرانی، قرآن اور اللہ کی حکمرانی کا مطلب طاغوت، امریکا، اسرائیل کی حکمرانی کا انکار ہے، اس انکار کا مطلب یو اے ای جیسے، سعودیہ جیسے غلام ممالک کے سامنے اپنی حیثیت اور طاقت کا اظہار ہے، نہ کہ چند ڈالروں کے عوض بائیس کروڑ عوام کی حمیت، جرأت اور ان کے ایمان کا سودا کر بیٹھیں اور سب کو غلام بنا لیں۔
انہوں نے اسلام کی تعلیمات اور کفر کے مقابلے میں جہاد کے جذبے کو قائم رکھنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آج دنیا میں اسلام اور کفر کی جنگ غیر اعلانیہ طور پر شروع ہوچکی ہے۔ اسلام اور کفر کی اس جنگ میں سرحدیں معنی نہیں رکھتں، یہ ذہن میں رکھیئے گا، جب انگریزوں نے حملہ کیا تھا تو ہمارے فقہاء اور مجتہدین کمر کس کر اسلحہ ہاتھ میں لیکر انگریزوں سے اپنی سرزمین بچانے کے لیے نکلے تھے، اس لیے کہ اسلام اور کفر کی جنگ میں کوئی سرحد نہیں ہوتی، کیونکہ جنگ کفر کے ساتھ ہے اور یہ جنگ ہر اس شخص پر واجب ہوتی ہے، جو لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کا کلمہ پڑھتا ہے۔ ہر مسلمان جو چاہیئے کہ وہ کفر، استعمار اور طاغوت کے حملوں کے نتیجے میں میدان میں نکلے اور پوری طاقت کے ساتھ نکلے، چاہے یہ حملہ افغانستان پر ہو، شام، یمن، نائجیریا، تیونس، لیبیا، عراق اور فلسطین پر ہو۔/۹۸۸/ن