رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر علامہ سید ریاض حسین نجفی نے کہا ہے کہ عقیدہ توحید مضبوط ہونا چاہیے، دعا اور وسیلہ کی اہمیت اپنی جگہ، اولاد اللہ ہی دیتا ہے، کسی اور کا اختیار نہیں۔ بعض لوگوں کا اِسے کسی پیر ،فقیر کی دعا یا تعویز کا نتیجہ سمجھنا درست نہیں۔ سب سے بڑی نعمت اللہ کی طرف رہنمائی اور صراط مستقیم کی پہچان ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو یہی تعلیم دی مگر انہیں جادوگر اور مجنون کہا گیا۔ سرور کائنات نے لوگوں کو اللہ کی نعمتوں کا احساس دلایا کہ انسان کے وجود میں بے شمار نعمتیں ہیں۔ زندگی کے اسباب و سامان کی نعمات الگ سے شکر کی مستحق ہیں۔ لوگوں نے پیغمبراکرم کی قدر نہیں کی، ان سے غیر ضروری سوالات کرتے تھے۔ پوچھتے کہ قیامت کب آئے گی؟ تو اس کا جواب دیا گیا کہ قیامت کا علم خدا کے سوا کسی کو نہیں۔
انہوں نے کہا کہ امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں کہ قیامت کا علم نہ ہونا بھی اللہ کا کرم ہے۔ اسی طرح موت کا وقت معلوم نہ ہونا بھی ایک رحمت اور نعمت ہے ورنہ انسان موت آنے سے پہلے زندہ درگور ہو جاتا اور عملی قوتیں مفلوج ہو جاتیں۔ علی مسجد ماڈل ٹاﺅن لاہور میں خطبہ جمعہ میں انہوں نے کہا کہ علم غیب کے بارے 3 قسم کی آیات ہیں، بعض میں کہا گیا کہ غیب کا علم فقط اللہ کو ہے، دیگر آیات میں یہ اشارہ ہے کہ خدا رسولوں میں سے جس کو چاہے غیب کا علم عطاء کرے، تیسرا یہ کہ اپنے مجتبیٰ اور چنے ہوئے لوگوں کو غیب کا علم دیتا ہے۔ قیامت کا علم خدا نے کسی کو نہیں دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب آدمی کو مسلسل نعمتیں مل رہی ہوں مگر وہ ان کا شکر ادا کرنے کی بجائے برائیاں کر رہا ہو تو نعمتیں ملنے کو فضل ِ ربی اور اللہ کا راضی ہونا نہ سمجھے بلکہ یہ ایک “استدراج” ہے یعنی درجہ بدرجہ اور مرحلہ وار اسے ایک خطرناک انجام کی طرف لے جایا جا رہا ہے اور پھر اچانک ہی اس کی گرِفت ہوگی پھر کچھ بھی نہیں بچے گا۔
حافظ ریاض نجفی نے کہا کہ مہلت کا ملنا دراصل توبہ کیلئے ہے، اس لیے نہیں کہ مسلسل نعمتوں کے باوجود وہ اللہ کو بھلائے رکھے۔ ارب اور کروڑ پتی لوگ دیکھتے ہی دیکھتے کوڑی کوڑی کے محتاج ہو جاتے ہیں۔ قارون، حضرت موسیٰ ؑ کا رشتہ دار تھا، عالِم بھی تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسے لوگوں کو دینی مسائل بتانے کیلئے مقرر کیا تھا لیکن جب بگڑ گیا تو منفی کردار کا نمونہ بن گیا۔ اس کے خزانوں کی چابیاں کئی لوگ بمشکل اٹھاتے تھے۔ اس کا عبرتناک انجام متوجہ کرتا ہے کہ کفران ِ نعمت کرنے والوں کا کیا حشر ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرآن مجید میں دیگر امور کے علاوہ رسول اکرم کو تین احکام دیے گئے۔ (اے رسول) درگزر سے کام لیں، نیک کاموں کا حکم دیں اور جاہلوں سے کنارہ کش ہو جائیں۔ جاہلوں سے الجھنا عقلمندی نہیں ہوتی۔ یہ حکم ہمارے لیے بھی ہے۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہوا اگر برا سلوک کرنیوالے سے بھی آپ اچھا سلوک کریں گے تو وہ آپ کا صمیمی دوست بن جائے گا۔ یہ درحقیقت شیطان ہے جو انسان کو اِس بات پر اکساتا ہے کہ برائی کرنے والے سے برا سلوک کرو۔ ایسے موقع پر انسان اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم اور لاحول ولا قوة الا باللہ پڑھے تو اللہ کی طرف سے بصیرت اور راہنمائی ملتی ہے اور آدمی شیطان کے بہکاوے سے بچ سکتا ہے۔/۹۸۸/ن