رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ مطابق، سرزمین قم ایران میں مقیم طلاب اور علمائے کرام نے اپنے صادر کردہ بیانیہ میں دلی کے حالیہ فرقہ وارانہ فساد کی جو دسیوں بے گناہ مسلمانوں کے مارے جانے اور سیکڑوں گھروں کو نذر آتش ہونے کا سبب ہوا شدید مذمت کرتے ہوئے حکومت ھند سے اشتعال انگیز بیان دینے والے رھبروں اور دنگائیوں کو فورا گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا ۔
اس بیانیہ کا تفصیلی متن مندرجہ ذیل ہے:
ہندوستان جو امن و بھائی چارہ کا مرکز سمجھا جاتا تھا جہاں مذہب و ملت کو مکمل آزادی دی گئی تھی جہاں رام اور رحیم، سکھ، عیسائی، اور دوسرے سینکڑوں مذہب کے ماننے والے ایک گلستان کے پھول کے مانند زندگی بسر کر رہے تھے جس ملک کی پہچان اور شناخت گنگا جمنی تہذیب تھی جہاں ہولی اور دیوالی اور عید میں فرق محسوس نہیں ہوتا تھا، جہاں اردو اور ہندی زبان کو دو بہن کا رتبہ دیا جاتا تھا، جہاں تلسی داس، کبیر اور معین الدین میں کوئی فرق نہیں تھا، جس کی آزادی کی جنگ ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی نے ملکر لڑی اور رام اور رحیم کے جیالوں نے کندھے سے کندھا ملاکر انگریز خونخواروں کو ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کیا اور آزادی کے لئے سب نے مل کر وطن کی مٹی کو اپنے اپنے خون سے سینچا۔
آج پھر اسی ہندوستان کو مٹھی بھر خائن اور تخت و تاج کے پجاری غلامی کی طرف لے جا رہے ہیں یہ غلامی نفرت کی غلامی، بھید بھاؤ کی غلامی، آپسی تنفر کی غلامی اور لڑائی جھگڑا خون و فساد کی غلامی ہے۔
دہلی جو ہندوستان کا مرکز ہے جہاں سب سے زیادہ امن ہونا چاہئے تھا وہیں چند شر پسند عناصر کی بیہودہ یاوہ گوئی کے نتیجہ میں بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے، عزت و آبرو کو پامال کیا جا رہا ہے، حکومت اور پلیس اہلکاروں کی مدد سے شرپسندوں کے ناپاک منصوبوں کا نشانہ بنا ہوا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ دلخراش واقعہ کوئی حادثہ نہیں تھا بلکہ ایک منظم سازش اور مکمل منصوبہ تھا جس کی تیاری اور آمادگی پہلے سے کی گئی تھی جیسا کہ اس سے پہلے شاہین باغ اور دیگر مقامات پر چل رہے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پرامن مظاہرہ کرنے والوں پر گولی چلاکر فساد کی آگ کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی تھی لیکن مظاہرین کی ہوشیاری و بصیرت اور ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی اتحاد نے اس منصوبہ کو نقش بر آب کر دیاتھا۔ اس سازش کو بھی اگر حکومت اور پلیس کا تعاون حاصل نہ ہوتا تو یہ سازش بھی ناکام ہو جاتی جیسا کہ دیکھا جا رہا ہے ہزاروں شرپسند عناصر بے لگام سڑکوں پر گھوم رہے ہیں اور دہلی پلیس 72 گھنٹوں تک شہر جلنے کا انتظار کرتی رہی۔ گھر جلائے جا رہے تھے، دکانیں نذر آتش کی جارہی تھیں، مسجدوں اور مدرسوں کے تقدس کو پامال کیا جا رہا تھا، بچوں، بزرگوں اور صنف نازک پر بھی رحم نہیں کیا گیا، ستم بالائے ستم تو یہ کہ پلیس ان دنگائیوں کے شانہ بہ شانہ ہو کر فساد کی آگ کو ہوا دے رہی تھی۔ چوکیدار ہی چوروں کا مددگار ہو جائے تو پھر اندھیر نگری چوپٹ راجہ کی مثل زندہ مثال ہو جاتی ہے۔
بے گناہ جیلوں کی زینت کو بڑھا رہے ہیں اور فسادی و دنگائی جن کے بیانات اور اشتعال انگیز تقریروں نے اس فساد کی بنیاد رکھی ان کے خلاف نہ یہ کہ اف آئی آر تک درج نہیں کی گئی بلکہ ایسے افراد کو حکومت کی طرف سے سیکورٹی بھی دی جا رہی ہے، انصاف کے مندر عدالت کے جج نے جب احتجاجاً دہلی پلیس کی توبیخ کی تو اس کا تبادلہ کر دیا گیا تاکہ کسی کو انصاف نہ مل سکے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اقتدار کے بھوکے درندے فسادات اور فرقہ پرستی کا سہارا لے کر گندی سیاست کی بیساکھیوں پر اقتدار کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔
ہم اس مقام پر اس شرمناک حادثے کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے بانی شر وہ چاہے جس پارٹی یا مسلک سے تعلق رکھتے ہوں جن کے بیانات نے لوگوں کو ایسے گھناونے اور انسانیت سوز اقدام پر مشتعل کیا ہے، اپنے ملک کی عدلیہ سے ان سب کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہیں اور اس حادثے کے متأثرین کی دلجوئی کرتے ہوئے ان کے لئے صبر و استقامت کی توفیق کی دعا کرتے ہیں اور حکومت ہند سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ایسے افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے اور متأثرین کے نقصانات کا معاوضہ دیا جائےاور ان تمام افراد کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے انسانیت کی خاطر متأثرین کی دلجوئی کی اور ان کے حوصلوں کو سراہا۔
طلاب ھندوستان مقیم قم ایران
4 اپریل 2020 عیسوی