رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قائد ملت جعفریہ پاکستان حجت الاسلام سید ساجد علی نقوی نے یوم شھادت امام علی علیہ السلام پر خصوصی پیغام ارسال کیا ۔
حجت الاسلام نقوی نے کہا: امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ذات مجموعہ کمالات تھی، ان کی فضیلت اور خصوصیات پر قرآنی آیات اور احادیث پیغمبر اتنی زیادہ ہیں کہ ان کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا ۔
انہوں نے مزید کہا: قرآنی تعلیمات اور سنت رسول کی عملی تعبیر کا مشاہدہ آپ کی سیرت عالیہ میں کیا جاسکتا ہے، آپ انسانی اخلاق اور فضائل و کمالات میں انسان کامل تھے لہذا ان کی زندگی کا ہر پہلو کمال کے متلاشی انسانوں کے لئے چراغ راہ ہے، چنانچہ قرآن اور سنت پر ایمان رکھنے والوں کو یہ دونوں چیزیں سیرت علی میں تلاش کرنی چاہیں کیونکہ پیغمبر گرامی قدر اپنے اس فرمان میں فیصلہ فرماچکے ہیں کہ ''علی قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی کے ساتھ ہے" علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ ہے" علی خلوت و جلوت میں میرے ساتھ رہے'' ۔
حجت الاسلام نقوی نے بیان کیا: علوی سیاست کا یہ امتیاز رہا ہے کہ امیر المومنین نے حکومت کا حصول کبھی ہدف نہیں سمجھا بلکہ اپنے اصلی اور اعلی ہدف تک پہنچنے کا ذریعہ قرار دیا، اس سلسلے میں آپ کا معروف قول ہے کہ ''میرے نزدیک حکومت ایک پھٹے پرانے جوتے سے بھی کم تر حیثیت رکھتی ہے مگر اس صورت میں جب اس کے ذریعے کسی حق کو قائم کرسکوں اور کسی باطل کا خاتمہ کرسکوں'' ۔
انہوں نے کہا: امام علی علیہ السلام نے قومی خزانے سے ہر شخص کو مساوی تقسیم کیا ۔ لوٹی ہوئی قومی دولت کو ہر صورت میں واپس کرنے کے احتسابی عمل کی بنیاد رکھی، قومی خزانے اور بیت المال کو اس انداز میں صرف کیا کہ ہر شخص بلاامتیاز اس سے استفادہ کرسکے، کسی کو بھی لوٹ مار کرنے اور بدعنوانی کی اجازت نہ تھی، اس سلسلہ میں آپ کا مشہور فرمان ہے کہ ''اگر مجھے پتہ چل جائے کہ لوٹی ہوئی قومی دولت کئی ہاتھوں تک منتقل ہوچکی ہے تو اس کو تب بھی واپس قومی خزانے میں پلٹا دوں گا ۔
سرزمین پاکستان کے اس نامور شیعہ عالم دین نے کہا: حضرت نے حکمرانی کو خدمت کا ذریعہ اور خدا کی طرف سے عطا کردہ امانت قرار دیا اور اس کی ایسے ہی حفاظت کی جس طرح خدا کی امانتوں کی حفاظت کی جاتی ہے، اگردنیا کے تمام حکمران صرف عدل علی(ع) کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے نظام حکومت کو آگے بڑھائیں تو کامیاب ہوں گے ۔
انہوں ںے کہا: ہم امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب کی شہادت کی وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کو امیرالمومنین کی ذات اور جسم سے دشمنی نہیں تھی بلکہ ان کی فکر اور اصلاحات سے عدوات تھی جو کہ علی ابن ابی طالب نے سیاسی، معاشی اور معاشرتی میدانوں میں کی تھیں، اور درحقیقت امیرالمومنین کی شہادت ایک شخص یا فرد کی نہیں ایک فکر اور نظریہ کی شہادت ہے ۔