رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مراجع قم میں سے حضرت آیت الله جعفر سبحانی نے اپنی سلسلہ وار تفسیر قران کریم کی نشست میں جو مدرسہ حجتیہ قم میں سیکڑوں طلاب و افاضل حوزہ کی شرکت میں منعقد ہوئی سورہ مبارکہ یاسین کی 69 ویں ایت کی تفسیر میں کہا: زمان جاہلیت میں اشعار کا تین محور تھا ، نفسانی خواہشات، فوجی مسائل اور شیوخ کی مدح و ستائش ۔
انہوں ںے یہ بیان کرتے ہوئے پیغمبر اکرم(ص) سازندہ اور با مقصد اشعار سن کر خوش ہوا کرتے تھے کہا: ہم اپنی تحقیقات سے اس نتیجہ پر پہونچے ہیں کہ رسول اسلام ھرگز شعر نہیں کہتے تھے ، اور جب بھی کسی کو شعر پڑھنا چاھتے تو اسے نثر میں پڑھتے تاکہ لوگ قران پر شعر کا اتھام نہ لگا سکیں ۔
قم میں قران کریم کے اس نامور مفسر نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ ایسا نہ ہو کہ ایک دن مسلمانوں کے اسلام کو ادبیات اور ادب کا مخالف کہا جائے کہ جو اسلامی سماج کے کمالات میں سے ہے کہا: ہم وہ اشعار جو شہوت، جنگ، خون و خونریزی اور چاپلوسی کی غرض سے کہ گئے ہوں اس کے مخالف ہیں مگر اخلاق و حقائق کے بیانگر اشعار کے ہم مخالف نہیں ہیں ۔
تہمت سے قران کی حفاظت، پیغمبر کے امی ہونے کی علت
انہوں نے اپنے بیان کے دوسرے حصہ میں اس سوال کے جواب میں کہ خداوند متعال نے کیوں مرسل اعظم(ص) کے لئے پڑھنے لکھنے کے وسائل فراھم نہ کئے کہا: خداوند متعال نے حضرت ادم(ع) کو حقائق کا علم دیا مگر پیغمبر اسلام(ص) کی ذات گرامی حضرت آدم(ع) سے کہیں بالاتر و افضل ہے لہذا جو کچھ بھی حضرت آدم(ع) جانتے ہیں مرسل(ص) اعظم یقینا اسے جانتے ہیں ۔
حضرت آیت الله سبحانی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ پیغمبر اسلام(ص) کا کسی مدرسہ میں نہ جانا اور وہاں تعلیم حاصل نہ کرنا ان کے لئے عیب نہیں ہے کہا: نہ پڑھنا اور نہ لکھنا ان کے لئے عیب ہے جو اس کے ذریعہ حقائق تک پہونچنا چاہتے ہیں ، مگر وہ جو بغیر اس سے حقائق سے اگاہ ہوں انہیں اس کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔
انہوں نے کہا: قران کا بیان ہے کہ پہلے اپ کچھ بھی نہیں پڑھتے تھے اور اپنے مبارک ہاتھوں سے کچھ بھی نہیں لکھتے تھے ، کیوں کہ اگر ایسا کرتے تو منحرف افراد یہ کہتے کہ قران کو کسی راھب یا پادری سے سیکھا ہے ، مگر خداوند متعال نے قران کی حفاظت میں پیغمبر اسلام(ص) کو پڑھنے لکھںے کے وسائل سے بے نیاز رکھا کیوں کہ وہ قادر ہے کہ پیغمبر(ص) کو بغیر کسی وسیلہ کے حقائق سے اگاہ اور اشنا کرسکے ۔
حوزہ علمیہ قم کے اس مشھور استاد نے کہا: پیغمبر اسلام(ص) امی ہیں اور امی کے مطلب یہ ہے کہ اپ نے کسی درسگاہ میں تعلیم حاصل نہیں کی اس کا ھرگز مطلب یہ نہیں کہ اپ پڑھنا اور لکھنا نہیں جانتے ، اگر پیغمبر(ص) کو ان وسائل سے بے نیاز رکھا گیا تو وہ اس بناء پر ہے قران کی حفاظت کی جاسکے ، دوسرے یہ کہ یہ وسائل ھمارے لئے ضروری ہیں کہ ہم ایک مدت تک حساب و کتاب کی تعلیم حاصل کرکے علمی معمے حل کرسکیں مگر جو بغیر تعلیم حاصل کئے ان علمی معموں کو حل کرسکتا ہو اسے ان علوم کی تعلیم کی ضرورت نہیں ہے ۔
انہوں نے ایت «لِیُنذِرَ مَن کَانَ حَیّاً وَیَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْکَافِرِینَ» میں « لِیُنذِرَ» کو «وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ» کی علت جانا اور کہا: خداوند متعال نے فرمایا کہ ہم نے پیغمبر(ص) کو تعلیم دی تا کہ زندہ انسانوں میں سے وہ لوگ جو ھدایت کے لائق ہیں ان کی ھدایت کرسکیں، مگر وہ لوگ جو دشمن ہیں وہ « فی قلوبهم مرض» ہیں یعنی ان کے دل بیمار ہے ۔
اسرائیل مسلمانوں کا پہلے نمبر کا دشمن
حضرت آیت الله سبحانی بعض سنی علمائے کرام کی جانب سے شام کے خلاف موقف اپنائے جانے پر تعجب کرتے ہوئے کہا: اگر چہ علمائے اہل سنت میں بعض اچھے بھی ہیں مگر بعض مسلمانوں کو شامی فوج کے ساتھ لڑنے کے لئے اکسا رہے ہیں کہ جو مسلمان کو مسلمان کے خلاف لڑوانا ہے ۔
انہوں نے مسلمانوں کے درمیان مسلکی جنگ کی اگ بھڑکائے جانے کو عالمی سامراجیت کا خواب جانا اور کہا: ہم نے ایک بار بھی نہیں دیکھا کہ ان علمائے کرام نے اسلام کے حقیقی دشمن اسرائیل کے خلاف لڑنے کی تاکید کی ہو ۔
اس مرجع تقلید نے یاد دہانی کی : حال ہی میں اسرائیل ایک اجلاس رکھا گیا اور اس اجلاس میں سران کفر اس نتیجہ تک پہونچے کہ اگر غاصب صھیونیت چین و سکون کی زندگی بسر کرنا چاہتا ہے تو اس کے پاس فقط ایک راستہ اور وہ یہ ہے کہ ایک گروپ کو پیسہ دے کر دوسرے گروہ کو کافر کہنے پر ورغلائے اور انہیں گالیاں دے تاکہ مسلمانوں میں مسلکی اور قبائلی جنگ کی اگ بھڑک سکے ۔
حضرت آیت الله سبحانی نے ایت شریفہ «ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُکُم مِّن بَعْدِ ذَلِکَ فَهِیَ کَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَة وَ إِنَّ مِنَ الْحِجارَةِ» کی جانب اشارہ کیا اور کہا : مغربی دنیا واقعا پتھر کے مانند ہے ، کبھی جنایتیں اتنی زیادہ سنگین ہوتی ہیں کہ سن کر دل بھر اتا ہے پوری دنیا چیخ پڑتی ہے مگر مغربی انسانی حقوق کے دعویدار ایسے ہیں کہ اگر سیکڑوں لوگوں کو بھی مارا جائے تو بھی ان پر اثر نہیں ہوتا ۔
انہوں مزید کہا: امریکا نے ھیروشیما میں ایک ساتھ ڈیڑھ لاکھ افراد کا قتل عام کیا مگر ان کے پتھر نما دل پر زرہ برابر بھی اثر نہیں ہوا ۔