رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق، مراجع تقلید قم میں سے حضرت آیت الله جعفر سبحانی نے مدرسہ حجتیہ قم کی مسجد میں منعقد ہونے والی اپنی سلسلہ وار تفسیر قران کریم کی نشست میں کہا: «إِنَّا جَعَلْنَا فِی أَعْنَاقِهِمْ أَغْلاَلاً فَهِیَ إِلَى الأَذْقَانِ فَهُم مُّقْمَحُونَ» شامی دھشت گرد اس ایت کا مصداق ہیں اور گمراہی انسان کے عمل کا نتیجہ ہے ۔
انہوں نے شامی دھشت گردوں کو «وجعالنا قلوبهم قاسیه» کا مصداق جانا اور کہا: آج شام میں فوجیوں کا سینہ چاک کرنے والے اور دل چبانے والے «وجعالنا قلوبهم قاسیه» کا مصداق ہیں ، وہی سنگ دل افراد جنہیں خدا نے سنگ دل بنا دیا اور اس کی بنیاد وہ خود ہیں ۔
اس مرجع تقلید نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ خدا نے کوئی ایسا کام انجام دیا نہیں جو خود انسان کے لئے نقصان دہ ہو کہا: شامی دھشت گرد خود اپنے فاسد کاموں کی بنیاد ہیں ، خدا نے ان سے اپنی رحمت دوری کرلی ہے جس کے نتیجہ میں وہ «قسی القلب؛ سنگ دل » ہوچکے ہیں ، انسان کشی کرتے ہیں اور ان کا دل چباتے ہیں ۔
شام کے اردگرد دھشت گرد « آکلةالاکباد» کا مصداق ہیں
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ « آکلةالاکباد» فقط ایک اور وہ صرف ابو صفیان کی بیوی تھی کہا: اس وقت شام کے اردگرد موجود دھشت گرد بھی اسی عمل کو انجام دے کر ابوصفیان کی بیوی کی پیروی میں مصروف ہیں و لھذا « آکلة الاکباد و وجعلنا قلوبهم قاسیه » کا مصداق ہیں ۔
حضرت آیت الله سبحانی نے آیت «إِنَّا جَعَلْنَا فِی أَعْنَاقِهِمْ أَغْلاَلاً فَهِیَ إِلَى الأَذْقَانِ فَهُم مُّقْمَحُونَ» کی تفسیر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: خداوند متعال نے فرمایا کہ ھم نے ان کی گردنوں میں زنجیروں سے بند ہونے والے بڑے بڑے طوق قرار دئے ہیں جس کی بنیاد پر وہ اپنے سروں کو نہیں ہلا سکتے ، سوال یہ ہے کہ اگر خدا نے اسے انجام دیا تو پھر ابوصفیان و ابوجہل کی خطا کیا ہے ؟
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ یہاں طوق سے مراد، برے عقائد، باطل افکار اور خرافات کا طوق ہے، جس سے ان کی زندگی بھری پڑی تھی اور وہ ھرگز اس باطل عقیدہ سے باہر نہیں نکل سکتے تھے کہا: اگر باطل عقائد کا طوق قریش سے متعلق ہے تو پھر اس کا خدا سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر اس طوق کو خدا نے ان کے گلے میں ڈالا میں پھر ابوصفیان و ابوجہل کی خطا کیا ہے ؟
اس مرجع تقلید نے یاد دہانی کی : قران کا طرز گفتگو اس طرح ہے کہ خدا کی دو ہدایت ہے ایک عمومی ہدایت جو حتی فرعون، ابلیس اور یزید کو بھی شامل ہے اور اںہیں حق کی دعوت دیتا ہے اور جب انسان اس ہدایت سے بہرمند ہوگا تبھی دوسری ہدایت اس کے شامل حال ہوگی اور اگر اس ہدایت سے بہرمند نہ ہوا تو شقاوت اس کے شامل حال ہوگی ۔
انہوں نے تاکید کی: « اِنَّا جَعَلْنَا فِی أَعْنَاقِهِمْ » دنیاوی زندگی سے متعلق نہیں ہے بلکہ اخروی حیات سے متعلق ہے اور اس بات ایت کا لفظ « اِنَّا جَعَلْنَا » جو عربی گرامر کے لحاظ سے ماضی کا صیغہ ہے یعنی خداوند متعال نے فرمایا کہ ھم نے وہ طوق قرار دیا ہے ، اور اگر دنیا سے متعلق بھی ہو تو بھی اس سے مراد وہ خرافاتیں ہیں جنہیں ان کی زندگی نے الجھا رکھا ہے ۔