‫‫کیٹیگری‬ :
13 December 2017 - 13:11
News ID: 432224
فونت
حجت الاسلام و المسلمین ساجد نقوی:
آئی ٹی پی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ شہباز شریف کہتے ہیں کہ اسٹیک ہولڈرز نیا عمرانی معاہدہ تشکیل دیں، لیکن یہ واضح نہیں کیا کہ اصل اسٹیک ہولڈرز کون ہیں؟ اور دوسری بات اگر اسٹیک ہولڈرز کے پاس فیصلہ سازی کا اختیار ہے تو پھر اس میں دیگر اداروں کو شامل کرنیکی بات کرنا سمجھ سے بالاتر ہے، ہونا تو یہ چاہیے کہ جب نئے عمرانی معاہدے کی بات کی جا رہی ہے تو پھر اس کا منبع پارلیمنٹ کو قرار دیکر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اور مختلف طبقات کی نمائندگی کرنیوالے افراد کو اعتماد میں لیا جائے اور طویل مشاورت کی جائے۔
حجت الاسلام سید ساجد علی نقوی

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اسلامی تحریک پاکستان کے سربراہ حجت الاسلام و المسلمین سید ساجد علی نقوی نے کہا ہے کہ بتایا جائے کہ ملک کے اصل اسٹیک ہولڈرز کون ہیں؟ نئے عمرانی معاہدہ پر صرف باتیں نہ کی جائیں، اگر نیو سوشل کنٹریکٹ کرنا ہے تو پھر اسے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر لاگو کیا جائے، پورے ملک و قوم کو پابند کیا جائے کہ اس پر سختی سے کاربند رہیں، وزیراعلٰی پنجاب کے بیان نے بہت سے ابہام پیدا کر دیئے، جنہیں دور کیا جانا ضروری ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے وزیراعلٰی پنجاب کے حالیہ یبان پر تبصرہ کرتے ہوئے کیا۔ علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا کہ نئے عمرانی معاہدہ کے بارے میں جو بیان وزیراعلٰی پنجاب نے دیا، اس سے بہت سے ابہام جنم لے رہے ہیں، جنہیں واضح کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کہتے ہیں کہ اسٹیک ہولڈرز نیا عمرانی معاہدہ تشکیل دیں، لیکن یہ واضح نہیں کیا کہ اصل اسٹیک ہولڈرز کون ہیں؟ اور دوسری بات اگر اسٹیک ہولڈرز کے پاس فیصلہ سازی کا اختیار ہے تو پھر اس میں دیگر اداروں کو شامل کرنے کی بات کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہونا تو یہ چاہیے کہ جب نئے عمرانی معاہدے کی بات کی جا رہی ہے تو پھر اس کا منبع پارلیمنٹ کو قرار دے کر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اور مختلف طبقات کی نمائندگی کرنیوالے افراد کو اعتماد میں لیا جائے اور طویل مشاورت کی جائے۔

اسلامی تحریک کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ فیصلے کا اختیار اگر اسٹیک ہولڈرز کے پاس ہے تو پھر فیصلہ سازی میں کسی اور کا کردار نہیں ہونا چاہیے، جب یہ فیصلہ کر لیا جائے تو پھر پورے ملک و قوم سمیت تمام اداروں کیلئے یکساں ہونا چاہیے اور پھر تمام اکائیوں کو اس پر عملدرآمد کا پابند بھی بنایا جانا چاہیے۔

واضح رہے کہ کافی عرصہ قبل ملک کے معروضی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے ہم نے ہی سب سے پہلے مطالبہ کیا تھا کہ ملک کی مختلف پہلوں میں بگڑتی صورتحال میں نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے اور اس وقت بھی یہ باور کرایا تھا کہ اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔ /۹۸۸/ ن۹۴۰

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬