تحریر: ایس ایم شاہ
رسا نیوز ایجنسی ، عام طور پر جمہوریت کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ عوام کی حکومت عوام پر اور عوام کے لئے، اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ رائج سسٹم یہی ہے۔ جمہوریت کی بھی کچھ اقدار ہیں۔ جمہوریت میں طبقہ بندی پائی نہیں جاتی، جمہوریت میں غریبوں کی جان، مال، عزت و آبرو خطرے میں نہیں ہوتی، جمہوریت پر اشرافیہ کا ہمیشہ قبضہ جما نہیں رہتا، یہ کسی کی موروثی چیز نہیں بلکہ محض عوام اپنی خدمت اور ملکی ترقی کے لئے مناسب افراد کا انتخاب کرتے ہیں، جمہوریت میں نسلی اور مسلکی بنیادوں پر لوگوں کا قتل عام نہیں کیا جاتا، جمہوریت میں ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے کو اپنے مکتب کے مطابق عمل کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہوتا ہے، جمہوریت میں ظلم و بربریت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کی اہمیت ہوتی ہے، ایوان اقتدار پر براجمان افراد ان آوازوں کی شنوائی کرتے ہیں، جب لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں تو حاکم وقت اس کا سبب دریافت کرنے ان کے پاس پہنچ جاتے ہیں، جب کوئی بھوک ہڑتال کرتا ہے تو حاکم وقت بے اختیار ہوکر ان کی فریاد کو پہنچتے ہیں، جمہوریت میں نہ ظلم سہنے کی تعریف کی جاتی ہے اور نہ ظلم کرنے پر، جمہوریت میں اصل طاقت عوام ہوتی ہے، لہذا ہر وہ کام جو عوامی مفادات کے خلاف ہو، اس کی نفی کی جاتی ہے۔
یہاں کچھ سوالات پیش آتے ہیں، کیا ہمارے ملک میں بھی صحیح معنوں میں جمہوریت برقرار ہے؟ کیا ہمارے ملکی فیصلے ہماری اسمبلیاں کرتی ہیں یا اصل فیصلے ان سے مافوق طاقتوں کے اشاروں پر ہوتے ہیں؟ کیا قائد اعظم محمد علی جناح ملک کو ایسی حالت میں دیکھنا چاہتے تھے؟ پاکستان میں ہمیشہ اشرافیہ ہی کیوں برسراقتدار ہوتی ہے۔؟ موجودہ حکومت نے تو جمہوری اقدار کے پرخچے اڑا دیئے، پہلے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات ہوا کرتی تھی کہ اگر ہم پر ظلم ہوا، ہمارے حقوق چھینے گئے، ہماری جان خطرے میں پڑ جائے تو ہم سڑکوں پر نکلیں گے، اپنی مظلومیت کا رونا روئیں گے، دھرنا دیں گے، بھوک ہڑتال کریں گے، ریلیاں نکالیں گے، یوں یہ یہاں کے لوگوں کے لئے اطمینان قلب کا باعث ہوا کرتا تھا اور ان کی داد رسی بھی ہوا کرتی تھی، لیکن اب یہ تمام جمہوری اقدار زمین بوس دکھائی دیتی ہیں۔ دن بہ دن جمہوری اقدار کی دیواریں گرتی دکھائی دے رہی ہیں۔
زندانوں سے نکال کر مجرموں کو حکمران بنانا اب یہاں کا معمول بن گیا ہے، اشرافیہ ایک دوسرے سے میثاق جمہوریت جیسے معاہدوں کے ذریعے ملک لوٹنے کے لئے باریاں لگاتی ہے۔ حقیقی جمہوریت اور شفاف الیکشن کرانے کے لئے ڈاکٹر طاہرالقادری میدان میں اتر آئے، عمران خان صاحب نے اپنے ہم خیالوں کو ساتھ لاکر مدت مدید تک پارلیمنٹ کو گھیرے میں رکھا، لاہور ماڈل ٹاؤن میں بہت سارے بے گناہ لوگ حکومتی افراد کے ہتھے چڑھے، شیعہ قوم تو یہاں اس ملک میں ہمیشہ سے مظلوم ہی رہی ہے، 24 ہزار سے زائد محب وطن، محب اہل بیت اور معاشرے ملک و قوم کی ترقی میں سنگ میل ثابت ہونے والے افراد اب تک دہشتگردوں کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرگئے ہیں، آئے روز ہمارا کوئی نہ کوئی ڈاکٹر، انجینیر، وکیل، صحافی یا سماجی کارکن ملک کے گوش و کنار میں زندگی کی بازی ہار جاتا ہے۔
مکتب اہل بیت کو ہی یہ طرۃ امتیاز حاصل ہے کہ ہماری کوئی بھی پالیسی ملکی لیول پہ ہو یا بین الاقوامی لیول پر، ہر زاویے سے اسلام اور مسلمانوں کے وسیع تر مفادات کے تحت ہوتی ہے۔ آج تک ہم نے دہشتگردی کا جواب دہشتگردی سے نہیں دیا، ہم نے اپنی جانوں کے مقابلے میں دوسروں کی جان نہیں لی، ہم نہ تنگ نظر افراد کی تربیت کرتے ہیں، نہ کسی کی جان لینے کو جہاد سے تعبیر کرتے ہیں، نہ کسی کلمہ گو کے بارے میں کفر کا فتویٰ دیتے ہیں، ہم تمام مسلمانوں کی جان، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کرنا حاکم وقت کا اولین فریضہ قرار دیتے ہیں، ہم اس مولا کے پیروکار ہیں، جو ایک چیونٹی کے منہ سے جو کا ایک چھلکا چھیننے کے مقابلے میں ملنے والی پوری دنیا ومافیھا کی حکومت کو ٹھکرا دیتے ہیں۔
ہم سرعام امریکہ، اسرائیل اور اسلام کے لبادے میں مسلمانوں کے گلے کے خنجر آل سعود کے مظالم کی مذمت کرتے ہیں۔ فلسطین، یمن اور شام میں موجود سنی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم سے پردہ چاک کرتے ہیں، بعض نام نہاد مسلم ممالک کے اسرائیل کے ساتھ برقرار ہونے والے روابط کو ہم منظر عام پر لاتے ہیں، حزب اللہ لبنان کی صورت میں ایک عظیم طاقت اسرائیل کے گلے کی ہڈی بنی ہوئی ہے، تمام عرب ممالک مل کر بھی جس اسرائیل سے مقابلہ نہ کرسکے تھے، شجاعت حیدری سے سرشار حزب اللہ لبنان نے 33 دن میں ناقابل تسخیر قرار دینے والے اسرائیل کے جنگی جنون کو ہمیشہ کے لئے خاک میں ملا دیا، آج بعض تنگ نظر افراد ہماری مذکورہ ممالک کی حمایت کو مسلکی بنیاد بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، درحالیکہ اس حمایت کا دور دور سے بھی مسلک سے کوئی تعلق نہیں۔
فلسطین سنی نشین آبادی پر مشتمل ہے، یمن میں نصف آبادی سے بھی زیادہ سنی مذہب کے پیروکار ہیں، شام میں بھی اکثریت سنی برادری کی ہے، ہم پیغمبر اکرمؐ کے اس فرمان پر لبیک کہنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جس میں آپ نے فرمایا: جو شخص اس حالت میں صبح کرے کہ اسے دوسرے مسلمانوں کی حالت زار کی کوئی فکر ہی نہ تو ایسا شخص مسلمان ہی نہیں۔ آج مغربی ممالک "ڈیوائیڈ اینڈ رول" کی پالیسی کے مطابق مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بنانے کے درپے ہیں، اس ہدف تک پہنچنے کے لئے ہمارے اپنے بعض اسلامی ممالک، عرب امارات، قطر، بحرین، کویت اور ترکی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ ہم ان کے ناپاک عزائم کو شرمندہ تعبیر ہونے نہیں دیتے، دنیا بھر میں ان کے مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں، اسی جرم میں آل سعود کے پروردوں کی زیر نگرانی اپنے ملک کے اندر ہی ہمارے ٹیلنٹڈ افراد کے قتل عام کا ایک نیا دور شروع ہوچکا ہے۔
ملک میں قتل و غارت کا نیا سلسلہ شروع ہونے پر شیعہ سنی علماء نے احتجاج کا مہذب انداز اپنایا ہے، بھوک ہڑتال کے ذریعے پورے ملک میں اپنی مظلومیت کا اظہار کر رہے ہیں، مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اس میں شریک ہو رہے ہیں۔ بیرون ممالک میں بھی حقیقی جمہوریت کے خواہاں اور انسانیت کی حس سے سرشار افراد ان سے اپنی بھرپور حمایت کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ حکومت وقت ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ شاید وہ آل سعود کی مانند خود کو مطلق العنان تصور کرتی ہے۔ لگتا ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ یہ نااہل حکومت شرافت کو کمزروری سمجھتی ہے، پانامہ لیکس میں اربوں کی کرپشن ثابت ہونے کے باوجود وہ اپنے آپ کو ایک اسلامی ملک کا حکمران تصور کرتے ہیں، شرم نام کی کوئی چیز ان کے ہاں نہیں، وہ اب بھی اپنی صفائی پر تلے ہوئے ہیں۔
کل وہ برملا کہہ رہے تھے کہ ہم 30 لاکھ سالانہ ٹیکس دیتے ہیں، یہاں دوبارہ سوال اٹھتا ہے کہ آپ کی بات کی اگر تصدیق بھی کی جائے تو آپ کا سرمایہ کتنا زیادہ ہوگا، اتنا سرمایہ کہاں سے بنا؟ کیا آپ کوئی خاندانی وڈیرے ہیں، شاید وراثتی اشیاء کی طرف اگر نظر دوڑائی جائے تو... کے علاوہ کچھ سامنے نہیں آئے گا۔ باقی سب ملت کے پیسے ہیں، لگتا ہے کہ وہ اس بھوک ہڑتال کو گذشتہ احتجاجات کی طرح نظرانداز کرکے لوگوں کو میدان سے ہٹا دینا چاہتے ہیں۔ ہم حکومت وقت کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ملت تشیع کوئی اقلیتی مسلک نہیں بلکہ ایک بہت بڑی طاقت کا نام ہے، ہم نے ضیاء الحق جیسے ظالم و جابر ڈکٹیٹر کو لاکھوں افراد کے ذریعے گھیر کر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا تھا، ہمارے اندر شجاعت حیدری اب بھی موجزن ہے، نہ ہم نے پہلے مظلومیت برداشت کی ہے، نہ آئندہ کریں گے۔ بھوک ہڑتال ہمارا ابتدائی قدم ہے، شنوائی نہ ہونے کی صورت میں ہم ظالم حکمرانوں کے ایوانوں تک بھی جاسکتے ہیں۔ ہم موجودہ حکومت کو جمہوری اور انسانی اقدار کے مزید پرخچے نہیں اڑانے دیں گے۔