ڈاکٹر ساجد خاکوانی
28 اکتوبر 1964کو ایران کے بادشاہ نے ایک شاہی حکم نامے کے ذریعے امریکی فوجیوں کو مملکت ایران میں وہ حقوق عطاکر دیے جو ویانا کنونشن میں سفارتکاروں کے لیے مخصوص کئے گئے تھے اور امریکی فوجی مشن کو اپنی فوجی عدالتیں بنانے کی آزادی بھی دے دی، گویا امریکی فوجی پوری ریاست میں وردی پہن کرغیرملکی سفارتکارکی حیثیت سے بدمعاشی کرتے پھریں گے اور قانون و عوام کے ہاتھ ان کے گریبانوں تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ شاہ ایران کی اس ناعاقبت اندیش ملک و ملت دشمن فیصلے کے نتیجے میں ایک دبنگ آوازابھری اور اگلے ہی دن امام خمینی (رہ) نے ایک زوردار تقریر کی جس میں شاہ کے اس فیصلے پر زبردست تنقیدکی اور قوم کی طرف سے اس حکم نامے کی تنسیخ کا مطالبہ کردیا۔
شاہی مملکت میں ایک جابرحکمران کے سامنے کلمہ حق کی یہ صداآنے والے دنوں میں ایک بہت بڑے انقلاب کا مقدمہ بنی جس نے دنیاکی تاریخ میں عمومی طور پر اور عالم اسلام و مشرق وسطی کی تاریخ یں خاص طور پر ایک اہم ترین سیاسی و مذہبی کرداراداکیا۔ آمر حکمرانوں کے پاؤں ہوا میں ہوا کرتے ہیں کیونکہ ان کی جڑیں عوام میں ہونے کی بجائے خفیہ اداروں اور طاقت کے ایوانوں میں ہوتی ہیں جہاں سے انہیں اکھیڑ پھینکنا کچھ بھی دشوارنہیں ہوتا۔ چنانچہ حبس کے عالم میں ہوا کے اس ٹھنڈے جھونکے نے جہاں عوام الناس کوسیاسی شعور سے ہم آہنگ کر دیا وہاں شاہی محلات کے درودیوار ہلا مارے گئے اور شاہی طاغوت نے امام خمینی(رہ) کو ملک بدر کردیا ۔
امام خمینی 17مئی 1900کو ’’خمین‘‘ نامی شہر میں پیدا ہوئے جو تہران سے کم و بیش تین سو کلومیٹردورہے۔ امام خمینی(رہ) نے چھ سال کی عمر میں قرآن مجید ختم کیا اورپھرایران اور عراق کے متعدد شہروں سے دینی علوم کی تکمیل کی اور پھر تدریس دین سے ہی وابسطہ رہے۔ اس دوران ’’قم‘‘ آپ کا علمی و تحقیقی مرکز رہا جہاں سے آپ نے اسلامی فقہ وفلسفہ میں فن کمال حاصل کیا۔اس زمانے میں شاعری بھی کرتے رہے لیکن وفات تک وہ شاعری منظر عام پر نہ آسکی اور امام خمینی(رہ) کی علمی شخصیت ان کے سیاسی کارناموں کے پیچھے ہی چھپی رہی ، تاہم وفات کے بعد ان کی شاعری کی کتب شائع ہوئیں،آپ کی شاعری محبت اور فلسفہ سے بھری ہے۔
حق و باطل کی جنگ میں آپ نے ایک قلم کار سپاہی کی حیثیت سے جہاد کا آغازکیا اورسیکولرازم کے خلاف آپ نے کتابیں بھی لکھیں، ۱942میں آپ کی کتاب منظر عام پر آئی جس کے بعد متعدد موضوعات پر چالیس سے زائد کتب آپ کی طرف سے ایک قیمتی تحفے کے طورپرایرانی قوم کو میسر ہوئیں۔
۱970 کے آغاز میں امام خمینی(رہ) نے نجف اشرف میں اپنے سلسلہ وارخطبات میں اسلامی حکومت کے بارے میں تفصیلی خدوخال پیش کیے جو بعد میں شائع بھی ہوتے رہے ، انہیں خطبات میں آپ نے ’’ولایت فقیہ‘‘ کا نظریہ بھی پیش کیا جس سے ملت فارس کی صدیوں کی تھکاوٹ اتری ۔
آپ کی کتب نے کلام اقبال کے ساتھ مل کر ایرانی قوم میں شعورکو بیدارکیا، آپ نے متعدد بار یہ حقیقت باور کرائی کہ آج کے مسلمانوں نے اجتماعی طورپراسلام کو بطوراحکام کے تو لیا لیکن بطور نظام کے قبول نہیں کیا ۔ قلمی جہاد کا ابھی یہ سلسلہ چل ہی رہا تھا کہ 1977ء میں ایران کے مایہ نازبطل حریت ڈاکٹر علی شریعتی انتقال فرما گئے، ملک میں رضاشاہ پہلوی کے سامنے اور پوری دنیا میں سیکولرازم کے سامنے یہ ایک بہت بڑی آہنی دیوار تھی ۔اس خلا کو پر کرنے کے لیے اگلا نام امام خمینی(رہ) کا تھا پس میدان عمل نے آپ کو پکارا اورکارزارسیاست میں کود پڑے ۔ تاہم آپ کے تلامذہ نے اس سلسلے میں کارہائے نمایاں سرانجام دیے اور قلمی میدان میں سیکولرازم کے ابطال میں ایران نے باقی دنیا کو پیچھے چھوڑ دیا ۔
1953میں جب شاہ ایران کے حامی جرنیلوں نے محب وطن اور دیندار لوگوں کا قتل عام کیاتو امام خمینی(رہ) نے دیگر علمائے دین کو اکٹھا کر کے درپردہ شاہ کے خلاف تحریک کا آغاز کردیا۔ ایک مدت تک پانی کا بہاؤ گھاس کے اندر ہی رہا اور بہت سست روی لیکن چابکدستی وخامشی سے آگے ہی آگے بڑھتارہا۔ اس دوران علماء کی ایک بہت بڑی تعداد امام خمینی(رہ) کے جھنڈے تلے جمع ہوگئی اور جبروتشدد اور استبداد کے مرقع شاہی خاندانی حکومت کے خلاف یہ سیسہ پلائی دیوار مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی۔
ممکن ہے خروج کے وقت کو آگے لے جایا جاتا لیکن شاہ کے امریکہ نوازاقدام سے آتش فشاں پھٹ پڑا اورگھاس میں سست روی سے قطرہ قطرہ جمع ہونے والا دریااب آبشار بن کر بہہ نکلا اور اس زوروشور سے بڑھتاچلا گیا کہ راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ خش و خاشاک کی طرح بہہ گئی اوربڑے بڑے برج ریت کی دیوارہی ثابت ہو سکے۔ امام خمینی(رہ) ایک سالہ جلاوطنی کے بعد 4 اکتوبر ۱965 کو فرانس سے نجف اشرف ،عراق چلے گئے ۔عراق کی سرزمین بھی اس انقلابی راہنما کے لیے تنگ کر دی گئی یہاں تک کہ در بدر مہاجرت کے بعد اکتوبر978ء کو آپ مستقل طورپر فرانس میں پیرس کے نواحی قصبے ’’نوفل لوش‘‘میں سکونت اختیارکرلی اور اپنی سرزمین ایران میں انقلاب کی قیادت کرتے رہے۔ تحریک کے آغاز سے ہی امام خمینی(رہ) نے پنگھوڑے میں پلنے والے بچوں پر اپنی عقابی نگاہ رکھی اور پلنے بڑھنے والی نوجوان نسل جب میدان میں اتری تو حب الوطنی اور دینی حمیت سے سرشار اس نسل نے پورے انقلاب میں ایک ہی نعرہ’’اﷲ اکبر‘‘بلند کیا اورتاریخ کے دھارے کا رخ موڑ کررکھ دیا۔
گزشتہ نصف صدی سے زیرزمین پکنے والا لاوہ اکتوبر۱977 میں سڑکوں پر آن نکلا اور ایرانی نوجوانوں کے گروہ کے گروہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانندامریکہ و برطانیہ کے پروردہ استعماری بادشاہی نظام کے طاغوت،شاہ ایران رضاشاہ پہلوی کی فوجوں سے ٹکرانے لگے۔ ماضی و حال کی تاریخ گواہ ہے کہ ایران سمیت کل اسلامی ممالک میں استبدادکی آخری پناہ گاہ افواج ہی ہوتی ہیں جو دشمن اور دشمن کے کارندوں کو اپنا خون جگردے کر پرورش کرتی ہیں اور جب کبھی بھی عوام الناس ان بدمست حکمرانوں سے ان کے ظلم وستم کا حساب چکانے نکلتے ہیں تو یہی افواج عوام دشمن بن کر ان حکمرانوں کو آہنی تحفظ فراہم کرتی ہیں اور فرسودہ اور بدبودار نظام کے تسلسل کا باعث بن کر ملک و ملت اور آنے والی نسلوں سے بدترین غداری کے مرتکب ہوتی ہیں۔
زندہ قومیں ایسی فوجوں کے جرنیلوں سے ویسا ہی انتقام لیتی ہیں جیسے انقلاب کے بعد تہران کی سڑکوں پر شاہ ایران کے حامی جرنیلوں کی لاشوں کو رسیوں سے باندھ کر نوجوان اسی طرح لیے پھرتے رہے جیسے پاگل کتوں کی لاشوں کو کھینچ کر گڑھوں میں دبا دیاجاتا ہے۔ ان جرنیلوں نے انقلاب کے لیے نکلنے والے نوجوانوں پر اپنی بندوقوں کے دہانے بے دریغ کھول دیے تھے اور بلامبالغہ ایک ایک دن میں ہزارہا نوجوان کے جسد خاکی اٹھائے گئے کہ قبرستانوں میں دفنا نے کی جگہ کم پڑنے لگی لیکن جہاں اپنی ہی قوم کے قاتل ان ملعون جرنیلوں کی بندوقیں آگ اگلنے میں تھکتی نظر نہ آئیں وہاں آفرین ہے اس قوم کو جس نے قربانیوں کے تسلسل کا سرخ ترین باب رقم کیا اور ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے پر تیارنہ ہوئی۔
یہاں تک کہ 1978کے اختتام تک جلسے ،جلوس، احتجاج اور سول نافرمانی کے باعث ملکی نظام بری طرح مفلوج ہو چکا تھا اورانتظامیہ انقلابیوں کو قابو کرنے میں مکمل ناکام و نامراد ہو چکی تھی جبکہ پوراملک انقلاب کی دہلیزپر نئی قیادت کا منتظر تھا۔ بلآخرخفیہ اداروں اور قوت کے مراکزکی بنیاد پر ظلم و ستم کے سہارے حکومت کرنے والے شاہ ایران پرزمین تنگ کردی گئی اور6جنوری۱979 کو وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگیا ۔
حالات ہمیشہ ایک سے نہیں رہتے صبح کو سورج مشرق میں ہوتا ہے تو دن ڈھلے مغرب میں ڈوب رہا ہوتا ہی، ایک عالم دین کو ملک بدر کرنے والا خود ملک سے فرار ہوا اور دفن ہونے کے لیے دوگز زمین بھی نہ ملی کوئے یارمیں جبکہ امام خمینی(رہ) یکم فروری 1979کو کم و بیش سولہ سالہ جلاوطنی کے بعد اس شان سے لوٹے کہ پوری قوم ان کی دست بوسی کے لیے بے چین تھی ۔ فرانس سے ایک طیارے کے ذریعے مہرآباد کے ہوائی اڈے پرسرزمین ایران میں اترے اور زمین پر قدم دھرتے ہی رب ذوالجلال کے حضورسجدہ شکرانہ اد کیا ۔
اس زمانے کے اخباروں نے لکھا کہ ہوائی اڈے سے بہشت زہرا کے قبرستان شہداء تک ایک کروڑ انسانوں کے سر ہی سر نظر آرہے تھے جو اپنے ’’دیندار اور محب وطن‘‘راہنما کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب تھے۔ امام خمینی(رہ) نے کچھ وقت قم میں گزارا اور پھر ایران کے سپریم مذہبی راہنما ہوتے ہوئے بھی تہران میں کرائے کے چھوٹے سے کوارٹرنما گھرکے حجرے اندر زندگی کے بقیہ ایام فقرو درویشی کے عالم میں گزارے اور انقلاب کے نومولود کونپل کو خون جگرسے سینچتے رہے یہاں تک کہ 3جون 1989کو یہ آفتاب انقلاب بھی داعی اجل کو لبیک کہ گیا ۔