13 August 2016 - 12:38
News ID: 422616
فونت
النصرہ فرنٹ کی القاعدہ سے علیحدگی اور جدائی نظریاتی نہیں کیونکہ دونوں گروہوں میں پائے جانے والے تکفیری - جہادی افکار و نظریات میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں
دہشت گرد


رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق النصرہ فرنٹ کی القاعدہ سے علیحدگی اور جدائی نظریاتی نہیں کیونکہ دونوں گروہوں میں پائے جانے والے تکفیری - جہادی افکار و نظریات میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں بلکہ یہ جدائی صرف ظاہری حد تک ہے ۔

اندرونی سطح پر شام بحران کے اہم ترین اثرات میں سے ایک اس ملک میں القاعدہ کی سرگرمیوں کا آغاز تھا۔ دہشت گرد تنظیم القاعدہ گذشتہ کئی سالوں سے شام میں داخل ہونے اور اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش میں مصروف تھی۔ لہذا جب مارچ ۲۰۱۱ء میں شام میں سکیورٹی بحران کا آغاز ہوا تو تکفیری گروہ "دولت اسلامی عراق" میں شامل شامی دہشت گرد عناصر اور اسی طرح عراق میں موجود القاعدہ سے وابستہ دیگر گروہوں میں شامل عناصر نے شام میں ایک نام نہاد جہادی گروہ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا، جس کا مقصد صدر بشار الاسد کی حکومت کو سرنگون کرنا تھا۔

اس طرح شام میں سرگرم چھوٹے چھوٹے دہشت گرد گروہوں کو متحد کرکے ایک بڑا گروہ تشکیل دیا گیا، جس کا نام " کتائب النصرہ لاھل الشام" رکھا گیا۔ ۲۲جنوری ۲۰۱۲ء کو ابو محمد الجولانی کی سرکردگی میں اس گروہ نے رسمی طور پر اپنی موجودگی کا اعلان کر دیا۔ بہت ہی کم عرصے میں خطے کے بعض ممالک کی جانب سے بے تحاشہ مالی امداد اور اردن، تیونس، لیبیا، مراکش، چچنیا اور دیگر خلیجی ریاستوں سے بڑے پیمانے پر دہشت گرد عناصر بھرتی کرنے کے بعد اس گروہ کی سرگرمیوں میں غیر معمولی طور پر اضافہ ہوگیا۔ صرف چند ماہ میں النصرہ فرنٹ کا شمار شام کے اہم ترین اور طاقتور ترین مسلح گروہوں میں ہونے لگا۔

النصرہ فرنٹ کو حاصل ہونے والی مسلسل کامیابیوں اور شام کے بعض صوبوں میں بڑے پیمانے پر فتوحات نے دولت اسلامی عراق کے دل میں امید کی کرن پیدا کر دی۔ لہذا اپریل ۲۰۱۳ء میں ابوبکر البغدادی نے آڈیو پیغام کے ذریعے النصرہ فرنٹ کو دولت اسلامی عراق کی شاخ قرار دیتے ہوئے دونوں کو ملا کر نئے گروہ "دولت اسلامی عراق و شام" یا "داعش" کی تشکیل کا اعلان کر دیا۔

ابوبکر البغدادی کا دعویٰ تھا کہ النصرہ فرنٹ داعش کے ذیلی گروہ کے طور پر سرگرمیاں انجام دے۔ لیکن دوسری طرف الجولانی نے اس کی شدید مخالفت کی اور النصرہ فرنٹ کے دہشت گردوں نے بھی اس پیشکش کو مسترد کر دیا۔ جب النصرہ فرنٹ اور داعش کے درمیان اختلافات شدت اختیار کرنے لگے تو القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری نے اختلافات ختم کرانے کیلئے مداخلت کی۔ الظواہری نے دونوں گروہوں کی علیحدگی پر زور دیا اور کہا کہ دولت اسلامی عراق ابوبکر البغدادی کی سرکردگی میں عراق میں سرگرمیاں انجام دے، جبکہ النصرہ فرنٹ الجولانی کی سربراہی میں شام میں ایک علیحدہ گروہ کے طور پر فعالیت انجام دیتا رہے۔

اسی قسم کے اختلافات کے باعث داعش نے خود کو القاعدہ سے علیحدہ کیا اور القاعدہ نے بھی اپنے سے داعش کی ہر قسم کی وابستگی کو مسترد کر دیا۔ دوسری طرف الجولانی نے القاعدہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ الجولانی نے اعلان کیا: "ہم النصرہ فرنٹ القاعدہ کے سربراہ شیخ ایمن الظواہری کے ہاتھ پر بیعت کا اعلان کرتے ہیں۔" اس اعلان کے بعد النصرہ فرنٹ نے شام میں اپنی مسلحانہ سرگرمیوں میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا۔

۲۰۱۲ء کے آخر سے ۲۰۱۳ء تک النصرہ فرنٹ بڑی مقدار میں بھاری اسلحہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا اور اس دوران اس گروہ نے ٹینکوں کے ذریعے وسیع پیمانے پر حملوں کا آغاز کر دیا۔ لہذا انتہائی مختصر مدت میں النصرہ فرنٹ شام کے فعال ترین، موثر ترین اور شدت پسند ترین سلفی جہادی گروہ کے طور پر ابھر کر سامنے آگیا۔

اس گروہ نے مطلوبہ اہداف و مقاصد کے حصول کیلئے مختلف قسم کے طریقہ کار اپنائے۔ دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑیوں کے ذریعے بم حملے، خودکش بم حملے، ہلکے اور بھاری ہتھیاروں کے ذریعے حکومتی مراکز، ہوائی اڈوں اور اہم مقامات پر حملے، مرکزی راستوں اور ہائی ویز کے کنارے بم نصب کرنا اور شام آرمی اور سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹوں پر حملے ان کی چند ایک مثالیں ہیں۔ النصرہ فرنٹ کا خاص ہتھکنڈہ خودکش بم دھماکے ہیں، جن کے ذریعے اس گروہ نے خاص طور پر دمشق اور حلب میں کافی کامیابیاں حاصل کیں اور حکومت پر کاری ضربیں لگائیں۔

اگرچہ النصرہ فرنٹ نے اپنے اعلامیوں میں اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ عام شہریوں اور سویلین افراد کو بچانے کی پوری کوشش کرتا ہے اور اپنے حملوں کو حکومتی سکیورٹی فورسز کی وحشیانہ کارروائیوں کا ردعمل قرار دیتا رہا ہے، لیکن عملی طور پر ان کی طرف سے عام شہریوں کا قتل عام، خواتین کی آبروریزی اور شیعہ مسلمانوں اور علوی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے گلے کاٹنے جیسے اقدامات قابل مشاہدہ ہیں۔
ا
لنصرہ فرنٹ اب تک شام میں بڑی تعداد میں مساجد کو اپنے حملوں کا نشانہ بنا چکا ہے اور حتی اہلسنت علماء دین بھی اس گروہ کے شر سے محفوظ نہیں رہے۔ النصرہ فرنٹ کی طرف سے شہید کئے جانے والے معروف سنی علماء دین میں دمشق کے علامہ محمد سعید البوطی کا نام سرفہرست ہے۔ اس گروہ کے مجرمانہ اقدامات میں فوجی قیدیوں کا قتل کثرت سے نظر آتا ہے۔ یہ دہشت گرد گروہ سویلین افراد پر بھی رحم نہیں کرتا۔ ماں کی آنکھوں کے سامنے شیر خوار بچے کا قتل، شیعہ میاں بیوی کو جسمانی اور ذہنی طور پر ٹارچر کرنا اور دیگر ہزاروں مجرمانہ اقدامات اس گروہ کے کارناموں میں شامل ہیں۔

انہیں مجرمانہ اقدامات اور وحشیانہ پن کے باعث شام میں خانہ جنگی کے آغاز سے اب تک کئی بار عالمی برادری اور انسانی حقوق کے ادارے اس گروہ کی شدید مذمت کرچکے ہیں۔ ۱۱ دسمبر ۲۰۱۲ء میں امریکہ نے بھی النصرہ فرنٹ کا نام دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل کر لیا۔ اقوام متحدہ نے بھی ۱۴ مئی ۲۰۱۴ء میں اس گروہ کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے اس کا نام دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل کیا۔

عالمی برادری کی مذمت اور اقوام متحدہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دیے جانے کے بعد ترکی اور قطر نے النصرہ فرنٹ کے قائدین پر زور ڈالنا شروع کر دیا کہ وہ یا تو خود کو القاعدہ سے علیحدہ کر لیں اور یا پھر شام میں سرگرم دیگر سلفی جہادی گروہوں کے ساتھ ملحق ہوجائیں، تاکہ انہیں اعتدال پسند حکومت مخالف گروہ کے طور پر متعارف کروایا جاسکے اور ان کے دامن سے دہشت گردی کا داغ دھویا جاسکے۔ لہذا ۲۴ مارچ ۲۰۱۵ء کو شام میں سرگرم سات بڑے سلفی جہادی گروہوں کے ادغام سے ایک بڑا گروہ معرض وجود میں آیا جسے "جیش الفتح آرگنائزیشن" کا نام دیا گیا۔ ان سات گروہوں کے نام النصرہ فرنٹ، احرار الشام، جند الاقصٰی، جیش السنہ، فیلق الشام، لواء الحق اور اجناد الشام ہیں۔

جیش الفتح کی اہم ترین کامیابی شام کے شہر ادلب پر قبضہ ہے۔ لیکن بعد میں جند الاقصٰی اور فیلق الشام اس اتحاد سے علیحدہ ہوگئے، جس کے باعث یہ اتحاد کمزور پڑ گیا۔ دوسری طرف النصرہ فرنٹ کی حامی قوتوں کی جانب سے اس گروہ کے لیڈران پر القاعدہ سے علیحدگی پر زور دیا جا رہا تھا۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران النصرہ فرنٹ کی "مجلس شوریٰ" نے کئی میٹنگز منعقد کیں، جس میں القاعدہ سے علیحدگی کے مسئلے پر بحث مباحثہ ہوا۔

آخرکار الجولانی نے یہ بیان صادر کیا: "النصرہ فرنٹ القاعدہ سے علیحدگی کا اعلان کرتا ہے اور آج کے بعد مکمل طور پر آزادانہ اور خود مختار انداز میں سرگرمیاں انجام دے گا۔ یہ گروہ امارت الشام اور جیش الشام تشکیل دے گا۔" النصرہ فرنٹ کے رہنماوں نے اپنے اس فیصلے کی تائید کیلئے سلفی جہادی مفتی "ابو محمد المقدسی" سے فتویٰ بھی حاصل کر لیا۔ اسی طرح چند دن قبل القاعدہ کی "شوریٰ جہاد" نے بھی شام میں اپنی شاخ کے طور پر سرگرم النصرہ فرنٹ سے ہر قسم کا رابطہ ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

یہ فیصلہ ایک طرف القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری اور دوسری طرف النصرہ فرنٹ کے سربراہ ابو محمد الجولانی کی مرضی سے کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں النصرہ فرنٹ ایک خود مختار گروہ میں تبدیل ہوجائے گا۔ لہذا النصرہ فرنٹ نے اپنا نام تبدیل کرکے "فتح الشام فرنٹ" رکھ لیا ہے اور اپنا پرچم بھی تبدیل کرکے سفید پرچم اختیار کر لیا ہے۔

النصرہ فرنٹ اور القاعدہ میں علیحدگی کی وجوہات:

1۔ القاعدہ سے النصرہ فرنٹ کی علیحدگی کی کئی وجوہات ہیں، جن میں سے ایک اہم وجہ النصرہ فرنٹ کے علاقائی اور بین الاقوامی حامیوں کی جانب سے شدید دباو ہے۔ قطر اور ترکی کے حکام نے دوحہ اور استنبول میں انجام پانے والی النصرہ فرنٹ کے رہنماوں سے اپنی اکثر میٹنگز میں القاعدہ سے علیحدگی پر زور دیا ہے۔ النصرہ فرنٹ کے حامی ممالک نے اس گروہ کے رہنماوں کو یہ دھمکی بھی دی تھی کہ اگر وہ القاعدہ سے علیحدہ نہیں ہوتے تو سیاسی طور پر گوشہ گیر ہوجائیں گے اور ان کی ہر قسم کی سیاسی اور مالی امداد روک دی جائے گی۔

2۔ النصرہ فرنٹ کی القاعدہ سے علیحدگی کی دوسری اہم وجہ امریکہ اور روس کے درمیان انجام پانے والے حالیہ معاہدے کی طرف پلٹتی ہے۔ اس معاہدے کی رو سے دونوں ممالک کے حکام نے مشترکہ طور پر شام میں سرگرم تکفیری دہشت گرد گروہوں داعش اور النصرہ فرنٹ کے خلاف ہوائی حملوں کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی طرح امریکہ اور روس کے درمیان یہ بھی طے پایا ہے کہ وہ شام کے اعتدال پسند حکومت مخالف گروہوں کے خلاف کارروائی نہیں کریں گے۔ لہذا ابو محمد الجولانی نے النصرہ فرنٹ کو حتمی نابودی سے بچانے اور امریکہ اور روس کے ہوائی حملوں سے بچنے کی غرض سے القاعدہ سے علیحدگی کا فیصلہ کیا اور اپنے گروپ کا نام بھی تبدیل کر لیا ہے۔

3۔ النصرہ فرنٹ کے سربراہ الجولانی اور دیگر رہنماوں کی جانب سے شام میں جاری جنگ سے متعلق زمینی حقائق کو صحیح طور پر درک کرنا بھی ان کے اس فیصلے میں موثر واقع ہوا ہے۔ النصرہ فرنٹ کے رہنما بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکہ اور روس کی جانب سے النصرہ فرنٹ کو دہشت گرد گروہ قرار دیئے جانے اور بیرونی امداد کٹ جانے کے بعد حلب اور شمالی شام میں ان کی شکست یقینی ہوچکی ہے، جس کے باعث میدان جنگ میں ان پر دباو کی شدت میں بہت زیادہ اضافہ ہوچکا ہے اور اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو ان کا گروہ کمزور ہوتے ہوتے مکمل طور پر نابودی کا شکار ہو جائے گا۔ لہذا النصرہ فرنٹ کے رہنماوں نے ان حالات کے پیش نظر القاعدہ سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کیا۔
ا
لقاعدہ سے النصرہ فرنٹ کی علیحدگی کے نتائج:

النصرہ فرنٹ کی القاعدہ سے علیحدگی اس گروہ کیلئے فائدہ مند بھی ثابت ہوسکتی ہے اور نقصان دہ بھی۔ القاعدہ سے علیحدگی کے بعد النصرہ فرنٹ کیلئے سب سے بڑا چیلنج اس گروہ کے رہنماوں اور جنگجووں کے درمیان ممکنہ اختلافات پھوٹنے کا خطرہ ہے۔ النصرہ فرنٹ میں شامل دہشت گردوں کی اکثریت غیر ملکی ہے، جو ایمن الظواہری سے شدید متاثر ہیں اور اسی سلفی جہادی مفتی کے فتوے پر شام آئے ہیں۔ اسی طرح النصرہ فرنٹ میں شامل مختلف کمانڈرز اور گروپس جیسے خراسان گروپ بھی ایمن الظواہری کے افکار و نظریات سے شدید متاثر ہیں اور اسے اپنا روحانی لیڈر تسلیم کرتے ہیں۔ لہذا اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ مستقبل قریب میں چچن اور قفقازی جنگجووں سمیت غیر ملکی دہشت گردوں کی بڑی تعداد النصرہ فرنٹ چھوڑ کر داعش اور جند الاقصٰی سے جا ملے گی۔

دوسری طرف درپیش چیلنجز کے علاوہ القاعدہ سے علیحدگی کے بعد النصرہ فرنٹ کو بعض مواقع بھی فراہم ہوجائیں گے۔ القاعدہ سے جدائی کے بعد مستقبل میں اس بات کا امکان پیدا ہو جائے گا کہ النصرہ فرنٹ کو نئے نام سے ایک اعتدال پسند گروہ کے طور پر تسلیم کر لیا جائے اور یہ تصور قائم کر لیا جائے کہ النصرہ فرنٹ القاعدہ کے شدت پسندانہ افکار و نظریات ترک کرچکا ہے۔

النصرہ فرنٹ سے دہشت گردی کی چھاپ ختم کرکے ترکی اور خلیجی عرب ریاستیں خاص طور پر قطر اور سعودی عرب بغیر کسی ہچکچاہٹ اور جھجک کے اعلانیہ طور پر اس گروہ کی مالی اور سیاسی حمایت کرسکیں گے۔ اسی طرح دہشت گرد گروہوں کی فہرست سے النصرہ فرنٹ کا نام خارج ہو جانے کے باعث النصرہ فرنٹ شام میں موجود دیگر اعتدال پسند حکومت مخالف گروہوں کی مانند جنگ بندی تک اپنی موجودیت کو محفوظ بنا سکے اور مستقبل میں انجام پانے والے سیاسی عمل میں نئے نام سے شرکت کرسکے گا۔ ایسی صورت میں یہ گروہ مستقبل قریب میں علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر شام سے متعلق منعقد ہونے والی میٹنگز میں شرکت بھی کرسکتا ہے۔

آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ النصرہ فرنٹ کی القاعدہ سے علیحدگی اور جدائی نظریاتی نہیں کیونکہ دونوں گروہوں میں پائے جانے والے تکفیری - جہادی افکار و نظریات میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں بلکہ یہ جدائی صرف ظاہری حد تک ہے، جو عارضی اور مصلحتی امور کے تحت انجام پا رہی ہے۔ اس عارضی جدائی کا مقصد امریکہ اور روس کے ہوائی حملوں سے خود کو بچانا اور خطے کے حامی ممالک کی حمایت اور مدد بدستور برقرار رکھنا ہے۔ یہ امر النصرہ فرنٹ کی دوبارہ تقویت کا باعث بن سکتا ہے، جس کا نتیجہ شام میں خانہ جنگی میں شدت آجانے اور شام کا بحران مزید طولانی ہو جانے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬