رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق محمد امین توکلی زادہ نے آستان قدس رضوی کے نمائش ہال میں زیارت جامعہ کبیرہ کے جملات کہ جن میں حضرت اما م علی رضا علیہ السلام کو بعنوان "ائتلفت الفرقہ" یاد کیا گیا ہے اشارہ کیا اور کہا: جس وقت مختلف قوموں سے ہمارے اہل سنت بھائی اس نورانی بارگاہ میں مشرف ہوتے ہیں اور شیعوں کے ساتھ عبادت الہی میں مشغول ہوتے ہیں ، تو یہ لقب "فرقوں کے درمیان اتحاد پیدا کرنے والا"کاملا احساس ہوتا ہے۔
انہوں نے حریم قدس رضوی کو دلوں کے نزدیک کرنے کا مقام قراردیا اور کہا: ہر سال لاکھوں عاشق حضرت شمس الشموس علیہ السلام کے حضور مشرف ہوتے ہیں،سفر کے خطرات اور رنج و سختیاں اپنی جان پر لیتے ہیں اور حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی زیارت کی خاطر سفر کے لیے اقدام کرتے ہیں تاکہ رضوی روضہ منورہ میں کچھ لمحہ آرام و سکون کے ساتھ راز و نیاز میں مشغول ہوسکیں۔
انہوں نے اس بیان کے ساتھ کہ آج زیارت؛ محبین اہل بیت علیہم السلام کے درمیان بہترین رشتہ ہے ، وضا حت کی: آج تک دشمنوں نے بہت زیارت خباثتیں اور کوششیں کی ہیں تاکہ زیارت کے اثر اور مقام کو کم کیا جاسکے، لیکن نہ یہ کہ کامیاب نہیں ہوئے بلکہ لطف الہی سے روز بروز مسلمانوں کےدرمیان زیارت عقیق تر اور دلچسپ ہوتی جارہی ہے ۔
شام میں جنگ ، اسرائیل کی امنیت کے حفاظت کی وجہ سے ہے
آستان قدس رضوی کے روابط عامہ اور میڈیا کے سربراہ نے صہیونیزم کی جانب سے شام کی جنگ کے پروپیگنڈے کی طرف اشارہ کیا اور کہا:تکفیری اور سلفی کا اسلام کے کسی بھی نظریہ سے تعلق نہیں ہے بلکہ انسانی اصول اور حقوق بشر کے سامنے بھی لمحہ فکریہ ہے ۔ سامراج کی کوشش ہے کہ شام کی جنگ کو، حکومت مخالف کچھ لوگوں کی حکومت سے جنگ یا شیعہ سنی جنگ کے طور پر پیش کرے ، جب کہ یہ جنگ حقیقت میں اسرائیل کی غاصب حکومت کی امنیت کی حفاظت کے لیے ہے۔
انہوں نے تکفیری گروہ کی حسینی و رضوی زائرین پر جنایتوں کو محکوم کیا اور اس بیان کے ساتھ کہ زیارت افکار و عقائد کے درمیان اختلافی رہی ہے ،وضاحت کی:تکفیری گروہ جب قرآنی اور اسلامی شیعہ دلیلوں کے مقابلے منطقی جواب نہ دے سکا ، تو ظالمانہ قتل و غارت اور حضرت امام حسین و امام علی رضا علیہما السلام کے مظلوم زائرین پر جنایتیں شروع کردیں۔
توکلی زادہ نے مزید کہا: اگر تکفیری لوگ صاحب فکر ہوتے ، تو کبھی بھی قتل و غارت کے میدان میں نہ اترتے ۔ یہ جنایتیں زیارت کی منطق کے مقابلے میں ان کی کمزوری و ضعف پر دلیل ہیں۔ زیارت کی کشش اور جاذبہ کا زائرین کو دنیا کے دورترین نقطہ سے بہت زیادہ مشکلات وپریشانیوں کے باوجود مقامات مقدسہ کی جانت کھیچ لینا ، تکفیریوں کے غصہ اور حسد کو بھڑکادیتا ہے ۔
انہوں نے سامراج کے میڈیا کو شیعہ و سنی کے درمیان اختلاف پھیلانے اور اسلام کو کمزور کرنے کی طرف اشارہ کیا اور کہا: سامراج کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ شیعوں کو تمام اسلامی فرقوں سے جدا کرے ، لیکن آج تکفیری نظریہ سبب بنا کہ تمام محبین اہل بیت علیہم السلام کے درمیان خواہ شیعہ ہوں یا سنی اتحاد وجود میں آئے ۔
اس میڈیا کے امور کے ماہر نے تکفیری نظریات کی نسبت افکار کے شفاف اور روشن ہونے کےلیے ثقافت کا موثر و متحد ہونے کی ضرورت پر تاکید اور اظہار کہا: تکفیریوں کا حقیقی چہرہ دکھانے کے لیے واضح کیا جائے کہ یہ گروہ افراطی ہے اور اس کا اہل سنت بھائیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے ، اس لیے کہ آج جو شام میں جنایات انجام دی جارہی ہیں،صرف شیعوں سے مخصوص نہیں ہیں بہت زیادہ اہل سنت برادران بھی اس افراطی گروہ کے ذریعہ قتل ہوئے ہیں۔
ایران و پاکستان دوقوموں کے درمیان دوستی ٹوٹنے والی نہیں ہے
آستان قدس رضوی کے روابط عامہ اور میڈیا کے سربراہ نے اپنی تقریر میں ایران و پاکستان کی دو قوموں کے درمیان دوستی اور ثقافت کے اشتراک کی طرف اشارہ کیا اور کہا:ایران و پاکستان دوقوموں کے درمیان دوستی ناقابل انکار ہے ، اس لیے کہ ان کے درمیان ثقافتی و دینی اشتراک پایا جاتا ہے کہ جس کی تاریخی و اعتقادی بنیادیں مضبوط ہیں اور یہی اشتراک آج سبب بنا ہے کہ ایک دوسرے کی حمایت نے دشمنوں کی جانب سے تفرقہ اور اختلافات کو بے کار بنادیا ہے ۔
انہوں نے سامراج کی زور زبردستی کی حکومت کو اسلامی معاشروں کے مقابلے میں نفوذو دخالت سے تعبیر کیا اور کہا: نفوذ و دخالت کہ جس سے آج ایران جنگ میں مشغول ہے، سالوں پہلے بہت ہی سختی کے ساتھ حکومت کو کمزور کرنے اور ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے اور قوموں میں اختلاف ڈالنے کی غرض سے پاکستا ن میں شروع کیا جاچکا تھا۔
توکلی زادہ نے اس مطلب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ اسلامی جمہوریہ ایران، پاکستان کو ایک مضبوط و متحد ملک کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے ،کہا: مختلف قوموں اور فرقوں کے درمیان نفوذ اور اختلاف ڈالنا ،اسلامی معاشروں کے مقابلے میں سامراج کی گندگی سیاست کا حصہ ہے ۔ جب کہ اسلامی انقلاب ، حضرت امام خمینی(رہ) اور مقام معظم رہبری کا نظریہ ہمیشہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور مختلف اسلامی فرقوں کے دلوں کے آپس میں نزدیک کرنے پرموقوف رہا ہے ۔
میرجاوہ میں پاکستانی زائرین کےمناسب استقبال پر تاکید
انہوں نے اپنے سیستان و بلوچستان کے آخری سفر کی طرف اشارہ کیا اور کہا: آستان قد س رضوی کے محترم متولی نے سب سے پہلی ذمہ داری روابط عامہ اور میڈیا کے سررکھی اور حقیر کو ذمہ داری سونپی،کہ صوبہ سیستان وبلوچستان کا سفرکروں کہ جس کا مقصد پاکستانی زائرین کے لیے ایران و پاکستان کی سرحدوں پر حالات وشرائط کی تحقیق کرنا تھی ۔ آپ ہمیشہ پاکستانی زائرین پر کہ جو دور دراز کا سفر طے کرکے حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی زیارت کے لیے آتے ہیں خصوصی توجہ رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے میرجاوہ میں زائرین کے لیے مناسب اقامت گاہ و مسافرخانہ بنانے کا دستور صادر کیا ہے۔
پاکستان کی حکومت حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے زائرین کے لیے امنیت فراہم کرے
توکلی زادہ نے اس بیان کے ساتھ کہ پاکستان کی حکومت اور عہدے دار افراد سے ہماری گذارش ہے کہ زائرین رضوی کے لیے زیادہ سے زیادہ امنیت کی کوشش اور تدبیر کریں،کہا: زائرین کی امنیت اس پورے سفر میں آستان قدس رضوی کے لیے اہم مسئلہ رہی ہے اور زائرین کے سفر کے دوران آرام و آسائش کے امکانات فراہم کرنا ہماری شرعی ذمہ داری ہے۔ (۹۸۹/ف۹۴۰)