رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق وہابیوں نے اپنی غیر اسلامی آراء اور الٹے سیدھے فتووں کو اسلام دشمن طاقتوں کی مدد سے تمام مسلمانوں پر نافذ کرنے کے لیے لوہے اور آگ کو استعمال کیا اسلامی ممالک میں جہاں تک ممکن ہو سکا اپنے نجس ہاتھوں کو پھیلانے کی کوشش کی۔ عراق، شام، خلیج اور بہت سے دوسرے عرب ممالک ان وہابیوں کی یلغاروں سے محفوظ نہ رہ سکے۔
جہاں پر بھی ان وہابیوں نے حملہ کیا وہاں قبضہ کرنے کے بعد سب سے پہلے وہاں موجود صحابہ، تابعین اور اہل بیت رسول علیھم السلام کی قبروں کو مسمار کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ وہابی دشمن کی طرف سے خاص طور پر اسلامی آثار کو مٹانے پر مامور تھے۔
یہ بات یاد رہے کہ وہابیوں نے جنت البقیع کو دو مرتبہ مسمار کر کے تاریخ میں اپنے منہ کالے کیے ہیں۔
وہابیوں نے خوارج اور اسلا م دشمن طاقتوں سے وراثت میں اسلامی آثار سے دشمنی حاصل کی ہے تاریخ اور موجودہ حالات شاہد ہیں کہ دنیا میں اسلام دشمنی جہالت، ظلم و ستم اور فساد کو فروغ دینے والے سب سے بڑے ٹھیکیدار وہابی ہی ہیں ان وہابیوں نے دو مرتبہ جنت البقیع کے قبرستان کو تباہ کیا:
پہلی مرتبہ : سن 1220ہجری
جنت البقیع کو تباہ اور مسمار کرنے کا جرم کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ جب ال سعود نے 1220ہجری میں طاغوتی طاقتوں کی مدد سے پہلی مرتبہ مکہ و مدینہ پر حملہ کر کے قبضہ کیا اور ان مقدس شہروں میں خون کی ندیاں بہائیں تو قبضہ کرنے کے فورا بعد جنت البقیع کے مقدس قبرستان اور وہاں موجود روضوں اور مزاروں کو تباہ کر کے کھنڈرات اور مٹی و پتھروں کے ڈھیروں میں تبدیل کر دیا۔
لیکن اس کے بعد عثمانی حکومت نے ال سعود پر ایک لشکر جرار سے حملہ کر کے ان سے مکہ و مدینہ کے علاقے واپس لے لیے اور پھر دوبارہ سے مسلمانوں کے عطیات کے ذریعے ان مساجد، روضوں اور مزارات کو احسن طریقے سے تعمیر کیا کہ جن کو وہابیوں نے مسمار کر دیا تھا۔ پھر دوبارہ سے تعمیر ہونے والے یہ روضے، مساجد اور مقدس مقامات وہابیوں کے دوسری مرتبہ ان علاقوں پر قابض ہونے تک باقی رہے۔
دوسری مرتبہ: سن 1344ہجری
وہابیوں نے طاغوتی طاقتوں کی مکمل مدد کے ساتھ سن 1344ہجری کو دوبارہ مدینہ منورہ پر حملہ کیا اور وہاں قبضہ کرنے کے بعد اپنے درباری ملاؤں کے فتوے کو بہانہ بنا کر پورے جنت البقیع، وہاں موجود آئمہ اطہار کے روضوں اور اہل بیت رسول کے مراقد کو مسمار کر کے ایک چٹیل میدان میں تبدیل کر دیا۔
اور پورے کا پورا جنت البقیع خوبصورت روضوں، عمارتوں اور مساجد کی بجائے ایک ایسا میدان بن گیا کہ جہاں سے تمام قبروں کے نام و نشان کو ختم کر دیا گیا۔
وہابیوں نے اپنے نجس اداروں کو عملی جامہ کیسے پہنایا؟
جب وہابیوں نے 1344ہجری میں مکہ مدینہ اور اس کے گرد و نواح کے تمام علاقوں پر خون ریزی کے بازار گرم کرنے کے بعد قبضہ کر لیا تو وہ جنت البقیع میں موجود روضوں اور اہل بیت رسول اور صحابہ کرام کے آثار کو ختم کرنے کا بہانہ تلاش کرنے لگے۔
حجاز اور دوسرے اسلامی ممالک میں موجود مسلمانوں کے غم و غصہ سے بچنے اور اپنے قبضہ کردہ علاقوں کو دوبارہ ہاتھوں سے نکلنے سے بچانے کے لیے یہ چال چلی کہ سب سے پہلے آل سعود کی حکومت نے مدینہ کے علماء سے قبروں کی تعمیر کے حرام ہونے کا فتویٰ لیا۔
فتوی لینے کے لیے وہابیوں کے مفتی اور قاضی القضاة سلیمان بن بلیھد کو مامور کیا گیا اس نے پہلے تو مدینہ کے بچے کچے علماء سے بحث مباحثہ کیا اور پھر ڈرا دھمکا کر قبروں پر تعمیر کے حرام ہونے کا فتویٰ لکھوا لیا۔
سعودی حکومت نے اس فتوی کو بہانہ بن کر صحابہ کرام، معزز تابعین اور اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبروں کی اہانت اور بے ادبی کی اور 8شوال 1344ہجری کو اہل بیت رسول، صحابہ، تابعین اور بزرگ مسلمان ہستیوں کی قبروں کو مسمار کر کے پورے جنت البقیع کو چٹیل میدان میں تبدیل کر دیا۔
جنت البقیع کے روضوں اور مزاروں میں جو کچھ موجود تھا اسے ان وہابیوں نے ڈاکوؤں کی طرح لوٹا اور اس مقدس سرزمین کو تباہ و برباد کر دیا۔
سب سے پہلے ان وہابیوں نے مکہ، مدینہ اور دوسرے مقبوضہ علاقوں میں اسلامی آثار قدیمہ، قبور اور تمام مقدس مقامات پر یلغار کی اور سب کو منہدم کر دیا .....مکہ مکرمہ میں قبرستان معلی اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مقام ولادت کو تباہ اور منہدم کیا اور وہاں سے ہر چیز کو لوٹ لیا۔.......لعنة اللہ علی الظالمین/۹۸۹/ف۹۴۰/