رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق ساری کے امام جمعہ اور بعض طالب علموں نے شہر دماوند میں حضرت آیت الله جوادی آملی سے شہر دماوند میں ملاقات کی ۔
حضرت آیت الله جوادی آملی نے اس ملاقات میں بیان کیا : زمین شہید کے پاک خون سے طاہر و پاک ہوتا ہے «طِبْتُمْ وَ طَابَتِ الْأَرْضُ الَّتِی فِیهَا دُفِنْتُمْ» یہ روایت صغرای مسئلہ کو مشخص کرتا ہے اور کبرای مسئلہ کو قرآن مشخص کرتا ہے کہ «وَ الْبَلَدُ الطَّیبُ یخْرُجُ نَباتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ» ہم لوگ اس طرح سے ہو سکتے ہیں ، ہم لوگ ایسی زندگی بسر کر سکتے ہیں کہ ہمارا منطقہ سوائے طیب و طاہر ، سوای اچھی باتیں ، سوای اچھی نصیحت ، سوای اچھی خیر خواہی ، سوای نیک اندیشی کہ کوئی چیز نہ ہو ، یہ چیزیں ہمارے پاس ہو سکتی ہیں ۔
انہوں نے اپنی گفت و گو کو جاری رکھتے ہوئے بیان کیا : پیغمبر(صلّی الله علیه و آله و سلّم) کا مبارک وجود کہ «ما ینْطِقُ عَنِ الْهَوی» ہے فرمایا : «مِداد العلماء افضل من دماء الشهداء» علماء کا قلم شہدا کے خون سے افضل ہے ، اگر ایک منطقہ شہید کے خون کے ذریعہ طیب و طاہر ہوتا ہے اور اگر عالم دین کے قلم و دوات میں وہ قدرت پائی جاتی ہے کہ شہدا کے خون سے افضل ہو تو پھر یہ عالم دین بھی اپنے قلم و دوات کے ذریعہ سے زمین کو پاک و طاہر کر سکتا ہے ۔
قرآن کریم کے مفسر نے اپنی تقریر کے دوسرے حصہ میں حوزات علمیہ کو انقلابی ہونے کے سلسلہ میں قائد انقلاب اسلامی کی فرامائش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا : قائد انقلاب اسلامی کی طرف سے جو مطالب علماء و مراجع تک پہوچا ہے وہ یہ ہے کہ عوام و حوزہ کو انقلاب ہونا چاہیئے ، یہ صحیح راستہ ہے ۔ اگر واقعا نہج البلاغہ پر ہم لوگوں کا ایمان سبق کے لئے ہو جائے تو اس وقت معیار مشخص ہوتا ہے اور سرحد مشخص ہوتی ہے ، شدت و سستی مشخص ہوتی ہے تمام چیزیں مشخص ہوتیں ہیں ، جب نہج البلاغہ سبق کے لئے ہو تو اس وقت عالمانہ و محققانہ ، سماج ، سماج دینی و انقلابی ہوتا ہے ۔
حضرت آیت الله جوادی آملی نے نہج البلاغہ کی تعلیمات کا ایک نمونہ بیان کرتے ہوئے کہا : جب غدیر خم حاکم ہوا ، حضرت امیرالمومنین نے وہ خط جو مالک اشتر کو لکھا تھا اس میں فرمایا : مالک ! ہوشیار رہو «فَإِنَّ هذا الدِّینَ قَدْ كَانَ أَسِیراً فِی أَیدِی الْأَشْرَارِ» تمام دینی پروگرام پہلے و دوسرے اور تیسرے کے زمانہ میں تھا ، حضرت نے یہ نہیں فرمایا کہ دین کو مار دیا گیا بلکہ فرمایا دین کو اسیر کر دیا گیا ہے ! یعنی نماز تھا ، روزہ تھا تمام دینی احکامات تھے لیکن سب اسیر تھے ! تب اس سے معلوم ہوتا ہے نمونہ کے طور پر ہم لوگ دو طرح سے نماز پڑھ سکتے ہیں ؛ ایک نماز اسیر اور ایک نماز امیر ، انقلاب اسلامی سے پہلے نماز تھا لیکن نماز اسیر تھا ، وہ نماز تھا کہ جو «ینْهی عَنِ الْفَحْشاءِ وَ الْمُنْكَرِ» نہ تھا ، اگر چہ دوسرے احکامات تھے لیکن اسیر تھے «فَإِنَّ هذا الدِّینَ قَدْ كَانَ أَسِیراً فِی أَیدِی الْأَشْرَارِ» خداوند عالم امام خمینی رہ اور شہدا پر اپنی رحمت نازل کرے کہ دین کو آزاد کیا ، لہذا اس ملک میں جو بھی کام انجام پا رہا ہے اس کا ثواب سب سے پہلے امام خمینی رہ کے پاک روح اور شہدا اور مجروحین کے لئے لکھا جائے گا ۔/۹۸۹/ف۹۳۰/ک۶۶۸/