رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تین فروری انیس اناسی کو جو اہم ترین واقعات پیش آئے تھے ان میں سے ایک یہ تھا کہ امام خمینی نے اپنے ایک خطاب میں حکومت کی تشکیل کا اعلان کیا تھا اس کے علاوہ اس دن کچھ اور بھی انقلابی واقعات رونما ہوئے تھے۔ مختلف وزارت خانوں اور اداروں کے کارکنوں نے بختیار حکومت کے وزیروں اور اعلی عہدیداروں کو دفاتر میں آنے سے روک دیا تھا
فوج روز بروز عوام کے سامنے بے بس ہوتی جا رہی تھی اور فوجی جوان جوق در جوق شاہی فوج سے الگ ہو رہے تھے اور خاص طور پر امام خمینی کی وطن واپسی کے بعد تو یہ عمل اور تیز ہو گیا تھا
تہران کا میئر جواد شہرستانی وہ پہلا حکومتی عہدیدار تھا جو امام خمینی سے ملاقات کے لئے آیا اور آنے کے بعد اپنا استعفی امام خمینی کو پیش کر دیا لیکن امام خمینی نے دوبارہ اسے تہران کا میئر بنا دیا۔
شاہی حکومت کا وزیراعظم بختیار جو تہران کے میئر کے استعفے اور امام خمینی سے اس کی ملاقات کی خبر سن کر خوف زدہ ہو گیا تھا کہ کہیں دیگرعہدیدار بھی ایسے ہی قدم نہ اٹھانے لگیں، اس نے ایک انٹرویو میں کہا کہ جواد شہرستانی کے خلاف عدالت میں کیس دائر ہے اور میں نے اٹارنی جنرل کو حکم دیا ہے کہ وہ اس کیس کو دوبارہ شروع کرے -
تین فروری انیس اناسی کو تہران کے میئر کے ساتھ ساتھ سبھی حکومتی اداروں کے وہ عہدیدار جو پہلے سے ہڑتال پر چلے گئے تھے امام خمینی سے وفاداری کا اعلان کرنے کے لئے ان کی خدمت میں پہنچے۔
تہران میں بجلی کافی دیر دیرتک غائب رہنے لگی تھی لیکن بجلی بورڈ کے حکام، کارکنوں اور انجینئروں نے پارلیمنٹ کے علاقے کی بجلی کو کہ جہاں امام خمینی کا قیام تھا منقطع نہیں ہونے دیا۔
ٹیلی ویژن کے وہ ملازمین جنھوں نے انقلاب اور امام خمینی کی حمایت میں ہڑتال کر رکھی تھی ایک عارضی بوسٹر یا ٹی وی ٹاور تیار کر کے تہران کے وسیع علاقے کو کور اور لوگوں کو انقلاب کی خبروں سے مطلع کر رہے تھے اور اسی وقت سے اس چینل کا نام انقلاب چینل پڑ گیا تھا۔
فضائیہ کے ان جوانوں اور افسروں کے گھر والوں نے کہ جنھیں چند روز قبل گرفتار کر لیا گیا تھا ایک بار پھر وزارت قانون کے باہر دھرنا دے دیا۔
میڈیا میں بھی یہ خبریں آنے لگیں کہ امریکا نے شاہ سے اپنا رابطہ منقطع کر لیا ہے یہاں تک کہ واشنگٹن میں شاہی حکومت کے سفیر اردشیر زاہدی سے بھی امریکی حکام نے ملنے سے انکار کر دیا۔
انقلاب کونسل نے ایک لیسٹ تیار کی اور مہدی بازرگان کا نام عام انتخابات تک عارضی وزیراعظم کے طور پر امام خمینی کی خدمت میں پیش کیا۔
ایک ایسے وقت جب امام خمینی کی وطن واپسی کا جشن پورے ملک میں ہر طرف اپنے عروج پر تھا اور لوگ مختلف طریقوں سے خوشیاں منا رہے تھے امام خمینی نے ایک پریس کانفرنس میں ایران کے آئندہ اسلامی نظام کے موقف کا اعلان کیا اور فرمایا کہ وہ جلد ہی عبوری انقلابی حکومت تشکیل دیں گے۔
امام خمینی نے اسی طرح شاہ کے آلہ کار وزیراعظم شاہ پوربختیار کو خبردار کیا کہ اگر اس نے عوام کی سرکوبی اور ان پر تشدد کا سلسلہ جاری رکھا تو پھر وہ جہاد کا حکم دے دیں گے۔
بختیار نے لوماتھن کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ کبھی کبھی صبر و تحمل بہترین ٹیکٹیک ہوتی ہے اور اگر آیت اللہ خمینی، مقدس شہر قم میں اپنی حکومت تشکیل دینا چاہیں تو میں اس کی اجازت دے دوں گا تاکہ ویٹیکن کی طرح ایک حکومت تشکیل پا جائے۔
بختیار نے اعلان کیا تھا کہ وہ سماجی اور مذہبی مسائل کے حل میں آیت اللہ خمینی کے کردار کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہے۔
اس دوران پارلیمنٹ یا مجلس شورائے ملی کے چالیس ارکان نے اپنے استعفوں کا اعلان کر دیا تھا۔
وزارت عظمی کے دفتر کے کارکنوں نے بھی انقلاب کونسل سے اپنی یکجہتی اور حمایت کا اعلان کر دیا تھا۔
یاسر عرفات نے امام خمینی کے نام اپنے ایک پیغام میں کہا تھا کہ ایرانی عوام کی کامیابی کے نتائج اور اس کے اثرات صرف ایران کی ہی سرحدوں کے اندر تک محدود نہیں رہیں گے-
عبوری وزیراعظم کے طور پر مہدی بازرگان کے نام کی تجویز سے تین اور چار فروری کی درمیانی رات امام خمینی کو باخبر کر دیا گیا-
انقلاب کونسل کا اجلاس امام خمینی کی موجودگی میں منعقدہ ہوا جس میں کونسل کے سبھی ممبران شریک تھے - اجلاس کے دوران عبوری وزیراعظم کے طور پر مہدی بازرگان کے نام کا جائزہ لیا گیا اور پھر امام خمینی کی رضامندی کے بعد مہدی بازرگان عبوری حکومت کے وزیراعظم مقرر ہوئے- /۹۸۸/ ن۹۴۰