‫‫کیٹیگری‬ :
30 May 2018 - 16:00
News ID: 436079
فونت
آیت الله جعفر سبحانی:
حضرت آیت الله جعفر سبحانی نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ کفار سے دوستی اور رفاقت صحیح نہیں ہے کہا: سیاسی اور اقتصادی مسائل میں کفار سے تعلقات اس وقت صحیح ہے جب وہ مسلمانوں سے براہ راست جنگ اور برسرپیکار نہ ہوں ۔
حضرت آیت الله جعفر سبحانی

رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق، مراجع تقلید قم میں سے حضرت آیت الله جعفر سبحانی نے مدرسہ علمیہ حجتیہ قم ایران میں سیکڑوں طلاب و افاضل حوزہ علمیہ کی شرکت میں منعقد تفسیر قران کریم کے درس میں سورہ توبہ کی سترھویں اور آٹھارھویں آیت کی تفسیر کرتے ہوئے کہا : سولھویں آیت تک ہم اس نتیجہ تک پہونچے تھے کہ عالم اسلام میں شرک کا کوئی جگہ اور حیثیت نہیں ہے اور اس بات پر دلیلیں بھی موجود ہیں ۔

انہوں نے یہ بیان کیا: تمام انبیاء علیھم السلام ایک مقصد کے لئے اس دنیا میں آئے اور وہ یہ کہ عوام کو توحید و وحدانیت کی جانب ہدایت کرسکیں اور طاغوت و بتوں سے انہیں دور رکھ سکیں ، اس حوالے سے شرک جس صورت میں بھی ہو رسالت کے اولین قانون سے ناسازگار ہے اور دوسرے مرحلہ میں پوری دنیا انسانوں کے لئے پید کی گئی ہے لہذا کوئی ایسی جگہ نہیں بچتی جہاں خدا کا وجود نہ ہو لہذا انسان کے خدا کے سوا کسی اور کی تعظیم کرے یہ اس کے لئے حقارت ہے ۔

حضرت آیت الله سبحانی نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ تیسرا مسئلہ دین کے انتخاب کا مسئلہ ہے کہ خدا نے اس میں انسانوں آزاد رکھا ہے کہا: اسلام نے تمام ادیان کو قانون حیثت دی ہے مگر آیا یہ ادیان انسانوں کی نجات کا سبب بھی ہیں یا نہیں یہ دوسری گفتگو ہے ۔ فقط دین اسلام کے ماننے والوں کو ہی اس بات پر اطمینان رکھنا چاہئے کہ وہ قیامت کے دن کامیاب و کامران رہیں گے ۔

انہوں نے مزید کہا: اس سورہ کی سولھویں آیت میں موجود لفظ «ولیجه» پر ایک گوشہ رہ گیا ہے جس کا بیان کرنا مناسب ہے ، وہ یہ کہ آیا کافر اور مشرک حکومتوں سے دوستانہ تعلقات قائم کئے جاسکتے ہیں یا نہیں ؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان حکومتوں سے سیاسی ، ثقافتی اور ڈپلومیسی روابط البتہ اسلام کے حساس مسائل کو نگاہ میں رکھتے ہوئے ، قائم کئے جاسکتے ہیں مگر اس سورہ کی سولھویں آیت کے مطابق ان سے دوستانہ تعلقات نہیں قائم کئے جاسکتے نیز سیاسی ، ثقافتی اور ڈپلومیسی تعلقات کے سلسلے میں بھی قران کی تاکید یہ ہے کہ یہ تعلقات اس وقت قائم کئے جائیں جب کافر اور مشرک حکومتیں، مسلمانوں  سے جنگ کی حالت میں نہ ہوں ۔

اس مرجع تقلید نے یاد دہانی کی: عصر میں حاضر میں وہ کافر اور مشرک حکومت جو مسلمانوں سے برسر پیکار اور جنگ کی حالت میں ہے وہ غاصب صھیونیت ہے کہ مسلمانوں کے قتل عام میں مصروف ہے اسی بنیاد پر اسلامی حکومتیں ھرگز اس منحوس وجود سے تعلقات قائم نہ کریں مگر افسوس بعض اسلامی حکومتیں پوشیدہ طور سے اور بعض کھلم کھلا اس غاصب سے دوستانہ تعلقات قائم کرنے میں مصروف ہیں کہ ان کا یہ عمل آیات قران کے خلاف ہے ۔

انہوں نے سورہ توبہ کی سترہویں آیت کی تفسیر کرتے ہوئے کہا: قران کریم میں لفظ «ما کان» کی تکرار ہوئی ہے کہ کبھی نفی امکان کے معنی میں استعمال ہوا ہے جیسے قران کریم میں آیا ہے «ما کان الله ان یتخذ من ولد سبحانه» یعنی محال ہے کہ پروردگار کسی کو اپنا بیٹا بنائے اور کبھی نفی شان کے معنی میں استعمال ہوا کے کہ جیسے «ما کان الله لیضیع ایمانکم» یعنی خدا کے کے شایان شان یہ نہیں ہے کہ وہ تمھارے ایمان کو ضائع کرے ۔

حضرت آیت الله سبحانی نے اپنے بیان کے دوسرے حصہ میں بیان کیا: اب یہ دیکھنا پڑے گا کہ اس سورہ کی سترھویں آیت میں یہ لفظ کس معنی میں استعمال ہوا ہے کہ میری نگاہ میں نفی شان کے معنی میں استعمال ہوا ہے ، یعنی کفار اس لائق نہیں ہیں کہ وہ مسجدیں تعمیر کریں اور مسجدوں کی تعمیر کے افتخار کا سہرا کفار کے سر آئے ۔

انہوں نے بیان کیا: مسجدیں وہ مقام ہیں جہاں خدا کی عبادتیں ہوتی ہے مگر مشرکین خدا کی مخلوقات کی عبادت کرتے ہیں اسی بنیاد پر انہیں مسجدوں کی تعمیر کا حق نہیں ہے اور اس آیت میں آگے آیا ہے کہ یہ لوگ چاہے جو بھی عمل انجام دیں مگر چونکہ ان کی نگاہ میں خدا نہیں ہے روز قیامت عذاب الھی کا شکار ہوں گے ۔

حوزه علمیہ قم میں درس خارج کے استاد نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ رسول اسلام (ص) کی بعثت کے وقت خانہ کعبہ اور اس کے اطراف میں 360 بت موجود تھے کہا: درختوں ، لکڑیوں اور پتھروں کے سامنے سر تعظیم خم کرنے والا انسان یقینا جہنم میں جائے گا اور اگر مشرکین دنیا میں نیک اور اچھے کام بھی انجام دیتے ہیں تو وہ دنیاوی منافع تک پہونچنے کے لئے ہے کہ اس کی جزاء انہیں اسی دنیا میں دے دی جائے گی ۔

انہوں نے تاکید کی: اس سورہ کی اٹھارہویں آیت میں ارشاد الھی ہے کہ جو لوگ مساجد کی تعمیر کی صلاحیت رکھتے ہیں انہیں خدا پر ایمان رکھنے والا ، نمازی ، زکات دینے والا ، عظمت الھی کے سامنے خوف و سر تعظیم خم کرنے والا کہا گیا ہے ، اور یاد رہے کہ یہ خوف دینی اور الھی خوف ہے وگرنہ وحشیوں اور خوف ناک حیوانات سے تو سبھی خوف زدہ ہوتے اور ڈرتے ہیں ۔/۹۸۸/ ن ۹۷۰

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬