تحریر: ڈاکٹر شفقت شیرازی
ہم فتنوں کے دور میں جی رہے ہیں اور اس دور میں دین و آخرت کی بھلائی کے ساتھ جینے کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے جینے کا طریقہ کار درست ہو۔ رسول اللہ صلی الله عليہ وآلہ وسلم سے روایت ہے:"ليغشين من بعدي فتن كقطع الليل المظلم، يصبح الرجل فيها مؤمناً ويمسي كافرا، ويمسي مؤمناً ويصبح كافراً، يبيع أقوام دينهم بعرض من الدنيا قليل"(كنز العمال، ج11، ص 127) ترجمه:"میرے بعد اندھیری رات کی طرح فتنے اٹھیں گے، صبح کے وقت ایک شخص مؤمن ہوگا تو رات کے وقت کافر اور اسی طرح رات کے وقت مؤمن ہوگا تو صبح کے وقت کافر ہوگا۔ قومیں اپنے دین کو تھوڑے سے دنیاوی فائدے کے عوض بیچ دیں گی۔"
*فتنے کے لغوی معنی*: فتنہ عربی زبان کا لفظ ہے اور ابتلاء و امتحان کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ گناہ، کفر، قتال، پریشانی، لوگوں میں اختلاف رائے اور آگ میں جانے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں سورۃ العنکبوت میں خداوند ارشاد فرماتا ہے:((الم *أحسب الناس ان يتركوا ان يقولوا آمنا وهم لا يفتنون * ولقد قتنا الذين من قبلهم فليعلمن الله الذين صدقوا وليعلمن الكاذبين*))"کیا لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جب کہیں گے کہ ہم ایمان لائے، کیا انکا امتحان نہیں لیا جائے گا * ہم نے جو قومیں ان سے پہلے آئیں انکی بھی آزمائش کی، تاکہ معلوم ہوسکے کہ کون سچے اور کون جھوٹے ہیں۔"
*فتنوں کی اقسام*
*الہی فتنے*
امتحان: اللہ تعالٰی نہیں چاہتا کہ ہم کفر اختیار کریں، بلکہ وہ تو پسند کرتا ہے کہ ہم ایمان والے ہوں، لیکن ہمارا ایمان سچا، برہان و دلیل اور یقین کے ساتھ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء اور برگزیده بندوں کا بھی امتحان لیا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ ایمان کے دعویداروں کا بھی امتحان لیتا ہے اور چھانٹی کرتا ہے اور چھاننی لگا کر سچے ایمانداروں کو جھوٹے ایمان کے دعویداروں سے علیحدہ علیحدہ اور جدا کرتا ہے۔
*شیطانی فتنے*
انسان کا کھلا دشمن شیطان اور اسکی جماعت ہے، لیکن انسان جب ان سے غافل ہو جاتا ہے تو وہ اسے دھوکہ دے کر گمراہی کے راستے پر لگا دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سورة الاعراف 27 نمبر آیت میں ارشاد فرماتا ہے((لا يفتننكم الشيطان كما اخرج ابويكم من الجنة)) "شيطان کو موقع نہ دو کہ تمہیں دھوکہ دیکر گمراہ کر دے، جیسے اس نے تمھارے والدین آدم و حوا کو دھوکہ دے کر جنت سے نکالا تھا۔"
سب سے خطرناک فتنہ
مقتدر قوتیں اور جابر حکمران لوگوں پر ظالمانہ اور جابرانہ تسلط قائم کرنے کے لئے ایسے آرڈر جاری کرتے ہیں اور ایسی قانون سازی کرتے ہیں، جو لوگوں کے عقیدے اور ایمان سے مطابقت نہیں رکھتی۔ ایسی صورتحال میں اگر تو وہ ان قوانین اور احکام کا انکار کرتے ہیں تو انہیں اذیت پہنچائی جاتی ہے۔ لوگوں کے عقیدے و ایمان اور افکار و نظریات کو طاقت اور قدرت کے استعمال سے تبدیل کرنے کا فتنہ سب سے خطرناک فتنہ ہے اور اسی فتنے کو قران مجید میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:((والفتنة اشد من القتل)) "کہ فتنہ قتل سے بھی زیادہ اور شدید نقصان دہ ہے۔" کیونکہ آزادی انسان کی انسانیت کا جوہر اور اسکا بنیادی حق ہے، جب انسان سے ایمان و اعتقاد اور افکار و نظریات کی آزادی کا حق چھینا جاتا ہے، گویا اس سے اسکی انسانیت چھین لی جاتی ہے۔ آزادی کے بغیر تو کوئی انسانیت نہیں بچتی۔ انسانوں کو جبری طور پر انکے عقیدے و ایمان و افکار و نظریات تبدیل کروانا انہیں قتل کرنے سے زیادہ سخت ہے اور جس قوم و ملت کی آزادی افکار و نظریات اور آزادی عقیدہ و ایمان سلب ہو جاتی ہے، وہ قوم زندہ نہیں مردہ ہو جاتی ہے اور مردہ اقوام کبھی آزاد و خود مختار اور فلاحی مملکت نہیں بنا سکتیں۔
آج امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی سیاست ہمارے سامنے اس قسم کے فتنے کو سمجھنے کی بہترین مثال ہے۔ پاکستان میں جب سے امریکی اور اسکے اتحادی سعودیہ کی مداخلت شروع ہوئی، اسی وقت سے پاکستان کے شہریوں پر درہم و دینار و ڈالر و ریال اور طاقت کے بل بوتے پر لوگوں پر متشدد عقائد زبردستی مسلط کئے جانے لگے۔ چنانچہ گذشتہ چند سالوں میں حکومتی سرپرستی اور امریکی و سعودی مدد سے وہابیت اور تکفیریت کی ترویج کی گئی اور جس نے اختلاف رائے کا حق استعمال کیا، اس پر پہلے فتوے جاری ہوئے اور پھر کسی ٹارگٹ کلنگ یا بم دھماکے سے اسے اڑا دیا گیا اور حکومتیں ایسے مجرمین کی حوصلہ افزائی کرتی رہیں اور نام نہاد لیڈر انکی پشت پناہی کرتے رہے۔ ملک پہلے ہی مشکلات میں گھرا ہوا ہے، اب ٹی وی چینلز کے ذریعے نت نئے فتنے ایجاد کرنے پر کام جاری ہے۔ یاد رہے کہ کہیں پر بھی دشمن حملہ آور ہونے سے پہلے فتنوں کو ہوا دیتا ہے اور اس ملک کے عوام کے اجتماعی روابط توڑ کر اجتماعی وجود کے ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے۔
پاکستان میں سنی و شیعہ مذہب اور نئے فتنے
صدر اسلام سے مسلمانوں میں دو بڑے مکتب فکر اور مذہب پائے جاتے ہیں، ایک شیعہ مذہب اور ایک اہل سنت اور پورے جہاں پر نگاہ ڈالی جائے تو آپکو یہ مذاہب ملیں گے، لیکن انکے مابین فتنے ایجاد کرنے کی جو ہوا پاکستان میں چالیس سال سے چل رہی ہے، آپ کو کہیں اور نہیں ملے گی. حالانکہ ان مذاہب کی تاریخ 1400 سال پرانی ہے۔ شیعہ مذہب کے اپنے عقائد و نظریات ہیں اور سنی مذہب کے اپنے، ان دونوں کے اکثر عقائد و نظریات مشترک ہیں اور بعض جگہوں پر آپس میں فرعی اختلاف پایا جاتا ہے۔ تاریخی طور پر بھی دونوں فرقوں کے درمیان ٹھوس اختلافات پائے جاتے ہیں، جیسے جنگ جمل و صفین وغیرہ کی جزئیات میں دونوں فرقوں کے نکتہ نظر میں آج تک بھرپور اختلاف ہے۔ البتہ محقیقین ان اختلافات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ ختمِ نبوت پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے اور اس کے بعد امامت کے مسئلے پر اختلاف شروع ہو جاتا ہے، دونوں مسالک کے درمیان امامت کے مسئلے پر تھوڑا بہت اختلاف ہے، جیسا کہ پیغمبرِ اسلام ﷺ کے بعد بارہ خلیفہ یا بارہ امام ہونے پر شیعہ و سنی دونوں مسالک کا اتفاق ہے، البتہ وہ بارہ امام کونسے ہیں، اس میں اختلاف ہے۔
شیعہ بارہ اماموں کو معصوم مانتے ہیں اور امامت کو ایک الٰہی منصب سمجھتے ہیں، جبکہ اہل سنت کے ہاں امامت کے لئے عصمت کی قید نہیں ہے۔ اسی طرح شیعہ و سنی علماء حضرت امام علیؑ کے مناقب، فضائل اور تفضیل کے قائل ہیں اور اس ضمن میں طرفین نے بہت کچھ لکھا ہے، البتہ اہل سنت امام علیؑ کو چوتھا خلیفہ راشد مانتے ہیں جبکہ شیعہ رسول اسلامﷺ کے بعد خلیفہ بلا فصل مانتے ہیں۔ اب پاکستان میں شیعہ و سنی کے درمیان اختلاف ڈالنے کا کام منبروں کے بعد ٹیلی ویژن چینلوں سے لیا جانے لگا ہے، بظاہر کہا تو یہ جاتا ہے کہ دینی پروگراموں سے اتحاد اور وحدت کے فروغ کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ عملاً اختلاف و انتشار کو ہوا دی جاتی ہے۔ ہمیں سب سے پہلے یہ سمجھنا چاہیے کہ اتحاد اور ادغام میں فرق کیا ہے!؟
اتحاد و وحدت کا حقیقی مفہوم
اتحاد اور وحدت ہی فقط وہ راستہ ہے، جس سے ملک بھی محفوظ رہ سکتا ہے اور شہریوں کے جان و مال اور ناموس کی حفاظت بھی ہوسکتی ہے۔ شیعہ اور سنی دونوں میں ایسے لوگ موجود ہیں، جو کہ اتحاد کے اعتباد سے افراط و تفریط کے شکار ہیں۔ کچھ لوگ سرے سے ہی اتحاد کے مخالف ہیں اور پرانے فتنوں کو ہوا دینا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں اور کچھ ان سے بھی خطرناک ہیں، جو اتحا و وحدت کے نام پر اتحاد و وحدت کو سبوتاژ کرتے ہیں۔ یہ گروہ اتحاد کے یا تو مفہوم سے واقف نہیں یا کسی لالچ، خوف یا ڈر یا پھر کسی سیاسی مصلحت کے تحت اپنے ہی مذہب کے اصولوں اور مسلمہ عقائد سے دستبرداری کا اظہار کرتا ہے، ایسی دستبرداری جسے نہ تو اسکے مدمقابل مذہب کے لوگ قبول کرتے ہیں اور نہ ہی اسکے اپنے مذہب کے پیروکار اس موقف کو مانتے ہیں اور پھر ایک ہیجان اور بے چینی کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے، جیسا کہ آجکل ہو رہا ہے۔
ہم یہاں پر اتحاد اور ادغام میں فرق کو واضح کرنا ضروری سمجھتے ہیں:
*اتحاد اور ادغام میں فرق*
اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ اپنے عقائد کو چھوڑو نہیں اور دوسرے کے عقیدے کو چھیڑو نہیں۔ یعنی شیعہ کا جو بھی عقیدہ ہے، وہ اپنے عقیدے اور نظریات پر باقی رہتے ہوئے اور دوسری جانب سنی بھی اپنے عقیدے اور نظریات پر باقی رہتے ہوئے مل کر اپنے مشترکہ دشمن کے مقابلے میں متحد ہو جائیں۔ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ اگر ہمارے حکمران اپنے سیاسی مفادات کے لئے اسرائیلیوں اور یہودیوں کے ساتھ مشترکات ڈھونڈ کر اتحاد کرسکتے ہیں تو کیا اسلام کے دفاع اور حفاظت کی خاطر شیعہ اور سنی علمائے کرام مل بیٹھ کر متحد نہیں ہوسکتے۔؟ اب رہا ادغام تو ادغام یہ ہے کہ شیعہ اور سنی ایک دوسرے کے ڈر سے یا کسی سیاسی و دنیاوی مفاد کی وجہ سے اپنے ہی مسلمہ عقائد کو چھوڑ کر یہ تاثر دیں کہ وہ دوسرے فرقے میں ضم ہوگئے ہیں، جبکہ ایسا ادغام چاپلوسی جھوٹ اور منافقت پر تو منتہج ہوسکتا ہے، لیکن اتحادِ اسلامی کا ترجمان نہیں ہوسکتا۔ اس سے کوئی تیسرا فرقہ تو جنم لے سکتا ہے، لیکن وحدتِ اسلامی کی بنیاد نہیں پڑ سکتی۔ اتحاد اسلامی کی درست نہج یہی ہے کہ تمام مسلمان اپنے اپنے عقائد پر آزادانہ عمل کریں اور ایک دوسرے کے عقائد کا دل سے احترام کریں۔ /۹۸۸/ ن۹۴۰