‫‫کیٹیگری‬ :
04 July 2018 - 16:19
News ID: 436492
فونت
معروف عربی روزنامہ رائے الیوم کیمطابق سعودی اور اماراتی یہ سمجھتے تھے کہ الحدیدہ پر قبضے سے یمن کا مغربی ساحل انکے کنٹرول میں آجائیگا اور اسطرح انہیں انصار اللہ پر زبردست اور فوجی برتری حاصل ہو جائیگی، پھر وہ انہیں مذاکرات کی میز پر لا کر جو چاہیں گے منوا لیں گے، لیکن انکا یہ مقصد حاصل نہ ہوسکا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ انصار اللہ کی لغت میں جھکنے کا لفظ ہی نہیں ہے۔
ثاقب اکبر

تحریر: ثاقب اکبر
 
الحدیدہ پر سعودی عرب کی قیادت میں اتحادیوں نے 13 جون 2018ء کو حملے کا آغاز کیا۔ یاد رہے کہ الحدیدہ یمن کے مغربی ساحل پر وہ واحد بندرگاہ ہے، جو اہل یمن کے لئے سانس لینے کا ذریعہ رہی ہے۔ مئی 2015ء سے یمن پر اتحادیوں کی یلغار کا سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے ہر طرف تباہی پھیلائی ہے۔ عالمی ادارے یمنی عوام کی بھوک، پیاس اور مظلومیت کی دہائی دے دے کر تھک گئے ہیں، لیکن چونکہ یہ حملہ بڑی استعماری طاقتوں کے ایماء پر جاری ہے، اس لئے انسانی حقوق کے ادارے اپنا جواز کو ثابت کرنے کے لئے صرف واویلہ ہی کرسکتے ہیں۔ یہی وہ بندرگاہ ہے جس کے ذریعے سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کچھ امداد پہنچ سکتی تھی یا میڈیکل ایڈ پہنچائی جا سکتی تھی۔ البتہ ہر کشتی اور یمن کی طرف آنے والی ہر چیز کی اتحادی افواج نگرانی بھی کرتی رہی ہیں اور تلاشی بھی لیتی رہی ہیں، اس کے باوجود یمنیوں نے جس استقامت اور بہادری سے جارحیت کا مقابلہ کیا ہے، اس نے جرات اور شہامت کی ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے۔
 
13 جون کو رمضان المبارک کے آخری دنوں میں الحدیدہ پر حملہ کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ چند دنوں کے اندر الحدیدہ پر قبضہ کر لیں گے۔ اس آپریشن کا نام گولڈن وکٹری رکھا گیا تھا۔ اب یہی متحدہ عرب امارات ہے جو الحدیدہ سے فرار کے بہانے تلاش کر رہا ہے۔ چنانچہ دو روز پہلے (یکم جولائی) کو متحدہ عرب امارات نے کہا ہے کہ سعودی عرب کی قیادت میں لڑنے والی افواج نے بندرگاہ حدیدہ پر حملہ روک دیا ہے۔ امارات کے وزیر خارجہ انور قرقاش نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ یہ حملے اس لئے روکے گئے ہیں، تاکہ اقوام متحدہ امن کے قیام کے لئے کوششیں کرسکے۔ انور قرقاش نے کہا کہ ہم اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے مارٹین گریفیٹس کی ان مسلسل کوششوں کا استقبال کرتے ہیں، جو وہ الحدیدہ سے حوثیوں کو بلاشرط نکالنے کے لئے کر رہے ہیں۔
 
دنیا بھر کے دفاعی ماہرین اس ٹویٹ کو امارات کے ایک طرح سے اعتراف شکست سے تعبیر کر رہے ہیں۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق اماراتی افواج الحدیدہ میں آمنے سامنے کی جنگ سے خوفزدہ ہیں، اس لئے اس نے فوجی اقدامات روکنے کا اعلان کیا ہے۔ امارات کی کمان میں لڑنے والی فوج گلی کوچوں میں جنگ کے لئے تیار نہیں۔ اماراتیوں نے جنگ بند کرنے کو گلی کوچوں میں جنگ لڑنے پر ترجیح دی ہے۔ اخبار کے مطابق الحدیدہ پر قبضے کے لئے جنگ کے آغاز کے موقع پر اماراتی کمانڈر مطمئن تھے کہ انہیں تیز رفتار کامیابی حاصل ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے انسانی المیے کے رونما ہونے کے اقوام متحدہ کی طرف سے الارم کو درخور اعتنا نہ سمجھا۔ اماراتی اور ان کے کرائے کے فوجی غرور میں تھے کہ انہیں بہت جلد انصاراللہ کے مقابلے میں کامیابی حاصل ہوگی چونکہ ان کے پاس زبردست فوجی قوت موجود تھی۔ ان کے مقابلے میں انصار اللہ اور ان کے حامیوں کے پاس بہت کم وسائل تھے۔
 
یہ سب اس حالت میں ہے جبکہ ایک دنیا جانتی ہے کہ سعودی اتحاد کو امریکہ، فرانس، برطانیہ اور اسرائیل کی حمایت حاصل ہے۔ اس حملے کے آغاز میں تو حملہ آوروں کی طرف سے بڑے بڑے دعوے کئے گئے اور یہ ظاہر کیا گیا کہ ان کی افواج تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہیں۔ یہاں تک کہ الحدیدہ کے ہوائی اڈے پر اتحادیوں کے قبضے کی خبر عالمی اداروں نے نشر کر دی، جو بعد میں غلط ثابت ہوئی اور بعد میں یمنی فوجیوں نے ہوائی اڈے کے مختلف علاقوں میں کھڑے ہو کر انٹرویو بھی دیئے اور تصویریں بھی کھینچوائیں اور دنیا پر یہ واضح کر دیا کہ اتحادیوں کا پراپیگنڈا باطل ہے اور یمنی عوام اپنی سرزمین کی حفاظت کے لئے سینہ سپر ہیں۔ لبنان کے آن لائن اخبار العہد کے مطابق ہر گزرتے دن کے ساتھ یمن کی جنگ کے حیران کن پہلو سامنے آرہے ہیں اور اس کی وجہ انصار اللہ اور اس کے حامی عوامی رضاکاروں کی استقامت ہے، جو اتحادیوں کے حملے کا جرات مندی سے دفاع کر رہے ہیں جبکہ علاقے اور مغرب کے دسیوں ممالک حملہ آوروں کی پشت پر موجود ہیں۔
 
یہ جنگ جوں جوں طویل ہوتی چلی جا رہی ہے، اس کا نقصان حملہ آوروں کو زیادہ ہو رہا ہے۔ ان کے اخراجات بڑھتے چلے جا رہے ہیں، ان کے محاذ پھیل رہے ہیں، ان کی افواج میں مایوسی پھیل رہی ہے اور کامیابی کی امید دم توڑ رہی ہے۔ انصار اللہ کی فوج کے سیاسی نمائندے علی عماد کا کہنا ہے کہ ہم نے حالیہ دنوں میں دشمن کے 160 فوجی گرفتار کئے ہیں۔ انصار اللہ کے ایک اور نمائندہ محمد البخیتی کا کہنا ہے کہ الحدیدہ میں دشمن افواج کو سخت شکست کا سامنا ہے۔ المنار ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دشمن کی افواج کو الحدیدہ میں کوئی پیشرفت نصیب نہیں ہوئی۔ انصار اللہ اور اس کے رضا کار حامیوں کا جذبہ بلند ہے۔ اس وقت محاذ جنگ پر ان کو پوری دسترس حاصل ہے۔ مغربی ساحل پر وہ پوری طرح مسلط ہیں۔
 
معروف عربی روزنامہ رائے الیوم کے مطابق سعودی اور اماراتی یہ سمجھتے تھے کہ الحدیدہ پر قبضے سے یمن کا مغربی ساحل ان کے کنٹرول میں آجائے گا اور اس طرح انہیں انصار اللہ پر زبردست اور فوجی برتری حاصل ہو جائے گی، پھر وہ انہیں مذاکرات کی میز پر لا کر جو چاہیں گے منوا لیں گے، لیکن ان کا یہ مقصد حاصل نہ ہوسکا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ انصار اللہ کی لغت میں جھکنے کا لفظ ہی نہیں ہے۔ ایک طرف مختلف محاذوں پر انصار اللہ اور اس کے حامی عوامی رضاکاروں کی شجاعت کے قصے ہیں اور دوسری طرف سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی حقیقت یمنی عوام پر دن بدن زیادہ آشکار ہوتی چلی جا رہی ہے۔ یمنی قبائل زیادہ یکسو ہو کر انصار اللہ کے ساتھ شریک ہو رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں صنعا میں منعقدہ ایک قبائلی ریلی میں قبائلی جنگجوﺅں نے مغربی ساحل کی طرف پیش قدمی کا اعلان کیا ہے۔ یہ جنگجو اسلحے سے لیس ہیں اور مغربی ساحل کی طرف مارچ کرنے کو تیار ہیں۔

یہ ریلی 2 جولائی سوموار کو سنہان اور بنی بہلول کے علاقے میں منعقد ہوئی۔ اس میں صنعاء کے گورنر حنین قطیقہ نے بھی شرکت کی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یمنی فوج کو قوی کرنے اور جارحین کے مقابلے کے لئے اجتماعی قوت کو میدان میں لایا جائے۔ شرکاء نے انصار اللہ اور رضاکاروں کی طرف سے جارحین کے خلاف جرات مندی کا مظاہرہ کرنے پر انہیں خراج تحسین پیش کیا اور یمنی فوج کی کامیابیوں کو سراہا۔ ایک تجزیہ کار کے مطابق اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عراق کی الحشد الشعبی کی طرح یمن میں بھی مختلف قبائل پر مشتمل عوامی فوج پہلے سے زیادہ جذبے کے ساتھ تشکیل پا رہی ہے۔ یمنی قبائل کے بڑھتے ہوئے اتحاد اور انصار اللہ پر اعتماد کا نتیجہ وہی ہوگا، جو اس سے پہلے عراق میں داعش کے خلاف نکل چکا ہے۔ اسی لئے ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ یمن میں اب پانسہ پلٹنے کو ہے۔/۹۸۸/ ن۹۴۰

 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬