رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق عید غدیر کی نماز کے پڑھنے والے کو خدا وند عالم ایک لاکھ حج اور ایک لاکھ عمرے کا ثواب عطا کرتاہے اور وہ خدا وند عالم سے جو بھی دنیا اور آخرت کی حاجت طلب کرے گا وہ بہت ہی آسانی کے ساتھ بر آ ئیگی۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَنَا مِنَ الْمُتَمَسِّکِیْنَ بِوِلَایَۃِ اَمِیْرِ المُؤْمِنِیْنَ وَ الاَئِمَّۃِ عَلَیْھِمُ السَّلام (اس خدا کی حمد ہے جس نے ہم کو امیر المومنین علیہ السلام اور ائمہ علیہم السلام کی ولایت سے تمسک کرنے والوں میں قرار دیا)
عید غدیر، اللہ کی عظیم ترین عید ہے اسے عید اللہ الاکبر کہا گیا ہے،آل محمد ؑ کے لئے عظیم ترین عیدوں میں اور عید ولایت ہے،خدا وند عالم نے ہر پیغمبر کے لئے اس دن کو عید قرار دیا اور محترم بنایا ہے،اس کا نام آسمان میں روز عید موعود اور زمین میں روز میثاق ماخوذ اور جمع مشہود قرار پایا۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی علیہ السلام کو وصیت کی کہ غدیر کے دن کو عید سمجھیں اور ہر پیغمبر نے اپنے وصی کو وصیت کی کہ اس دن کو عید قرار دیں۔ یہ بے حد مبارک و مسعود دن اور شیعوں کے اعمال قبول ہونے کا دن ہے اور ان کے غموں کے دور ہونے کا دن ہے۔
اس دن یعنی ۱۸؍ ذی الحجہ ۱۰ ہجری کو پیغمبر اکرمؐ نے اپنے آخری حج سے واپسی میں آیۂ بلّغ( يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ وَاللَّـهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ ﴿سورہ مائدہ آیت:۶۷﴾)۔ اے پیغمبر! آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے )، نازل ہونے پر حکم خدا کی بجاآوری کرتے هہوئے مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَھَذَا عَلِیٌّ مَوْلَاہُ کے ذریعہ اپنے بعد کے لئے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا جانشین و خلیفۂ بلا فصل معین فرمایا۔
جس کے بعد آیۂ اکمال (۔۔۔اَلْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ۚ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۔(سورہ مائدہ، آیت۳)۔ ۔۔۔آج کے دن کفار تمہارے دین سے مایوس ہوگئے ہیں لہذا تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو ۔آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے۔۔۔) نے نازل ہوکر غدیر کے دن دین کے مکمل اور جاودانی ہونے اور کفار و منافقین کی مایوسی کا اعلان کیا۔
امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا:جہاں کہیں بھی رہو کوشش کرو کہ روز غدیر حضرت علیؑ کی قبر مطہر کے پاس حاضر ہو ،خداوند عالم اس دن ہر مومن اور مومنہ کے ساٹھ سال کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے اور اس دن آتش جہنم سے اُس کے دوگنا لوگوں کو آزاد کرتا ہے جتنے ماہ رمضان اور شب قدر اور شب عید فطر میں آزاد کرتا ہے اور اس دن برادر مومن کو ایک درہم دینا ہزار درہم دینے کے برابر ہے اور اس دن برادران ایمانی کے ساتھ احسان کرو اور مومنین اور مومنات کوخوش کروبخدا اگر لوگوں کو اس دن کی فضیلت معلوم ہوجائے تو اس روز دس مرتبہ ملائکہ ان سے مصافحہ کریں گے۔
اس دن جناب موسیٰ ؑ نے جادوگروں پر غلبہ حاصل کیا، خدا نے جناب ابراہیم ؑ کے لئے آتش نمرود کو گلزار کیا، حضرت موسیؑ نے یوشع بن نون کو اپنا وصی بنایا، حضرت عیسیؑ نے شمعون الصّفا کو اپنا وصی بنایا،حضرت سلیمانؑ نے اپنی رعایا کو آصف بن برخیا کے خلیفہ ہونے پر گواہ بنایا ، رسول خداؐ نے اصحاب کے درمیان رشتۂ اخوت قائم کیا۔
اس دن کے بعض اعمال و آداب:
روزہ رکھنا(یہ روزہ دنیا کی عمر کے روزہ کے برابر ،سو مقبول حج اور سو مقبول عمرہ کے برابر اور ساٹھ سال کے گناہوں کا کفارہ ہے )،غسل کرنا، زیارت امیرالمومنین ؑ پڑھنا،نماز عید پڑھنا،غسل کرنا،دعائے ندبہ پڑھنا۔
اس دن کثرت سے عبادت کرنا، محمد و آل محمد ؑ کو یاد کرنا چاہیے اور ان پر بہت زیادہ درود بھیجنا چاہیے اور ان پر ظلم کرنے والوں سے برائت کرنا چاہیے،قبر حضرت علیؑ کی زیارت،مومنین کو عیدی دینا،مومن بھائیوں کے ساتھ احسان کرنا،مومنین کو خوش کرنا،اچھے لباس پہننا، زینت کرنا، خوشبو استعمال کرنا، خوش ہونا شیعوں کو خوش کرنا ،ان کی تقصیروں اور خطاؤں کو معاف کرنا، حاجتوں کو پورا کرنا ، صلۂ رحم کرنا، بیوی بچوں کو خوش کرنا اور ان کے لئے وسعت پیدا کرنا،مومنین کو کھانا کھلانا، روزہ رکھنے والوں کو روزہ کھلانا، مومنین سے مصافحہ کرنا، مومنین سے ملاقات کے لئے جانا، مومنین کو دیکھ کر مسکرانا، مومنین کے لئے تحفہ تحائف بھیجنا، ولایت کی عظیم نعمت کے لئے شکر بجا لانا، زیادہ صلوات پڑھنا، کثرت سے عبادت و اطاعت کرنا اسمیں سے ہر ایک عمل عظیم ترین فضیلت کا حامل ہے۔
اور اس دن جو ایک روپیہ برادر مومن کو دیتا ہے وہ اس ایک لاکھ روپیہ کے برابر ہوتا ہے جو اس کے علاوہ کسی اور دن دیا ہو۔
اور اس دن مومن کو کھانا کھلانا تمام پیغمبروں اور صدیقین کو کھانا کھلانے کے برابر ہے۔ اور امیرالمومنین علیہ السلام کے خطبہ میں ہے کہ غدیر کے دن جو شخص مومن روزہ دار کو افطار کرائے افطار کے وقت تو گویا اس نے دس فئام کو افطار کرایا ہے۔ کسی نے اٹھ کر پوچھا: یا امیرالمومنینؑ یہ فئام کیا ہے؟ فرمایا : ایک لاکھ پیغمبر، صدیق اور شہید۔ تو اب سوچو اس شخص کا حال کیا ہوگا جو تمام مومنین و مومنات کی کفالت کرے! میں اس کے لئے خدا کی بارگاہ میں ضامن ہوں کفر فقر وغیرہ سے محفوظ رہنے کا۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ اس دن یہ جملات بہت زیادہ کہو: اللّٰھُمَّ الْعَنِ الْجَاحِدِینَ والنَّاکِثِینَ والمُغَیِّرِینَ والمُبَدِّلِینَ والمُکذِّبِینَ الَّذِینَ یُکَذِّبُونَ بِیَومِ الدِّینِ مِنَ الَاوَّلِینَ والآخِرِینَ۔
(اے خدا! قیامت کے دن انکار کرنے والے عہد توڑنے والے ،تغیر وتبدل کرنے والے ،بدلنے(بدعت ایجاد کرنے والے) اور جھٹلانے والے چاہے وہ اولین میں سے ہوں یا آخرین میں سے سب پر لعنت کر۔)
نماز عید:
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فر ماتے ہیں :زوال سے آدھا گھنٹہ پہلے(خدا وند عالم کے شکرانہ کے عنوان سے)دور کعت نماز پڑھو ۔ہر رکعت میں سورہ حمد دس مرتبہ ، سورہ توحید دس مر تبہ ، آیۃ الکر سی دس مرتبہ اور سورہ قدر دس مر تبہ پڑھو ۔اس نماز کے پڑھنے والے کو خدا وند عالم ایک لاکھ حج اور ایک لاکھ عمرے کا ثواب عطا کرتاہے اور وہ خدا وند عالم سے جو بھی دنیا اور آخرت کی حاجت طلب کرے گا وہ بہت ہی آسانی کے ساتھ بر آ ئیگی۔
عقد اخوت و برادری:
عید غدیر کے لئے جو رسم رسومات بیان ہوئی ہیں ان میں سے ایک عقد اخوت ہے ،اس کا مطلب یہ ہے کہ مومنین ایک اسلامی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے آپس میں اپنی برادری کو مستحکم کرتے ہیں ،اور ایک دوسرے سے یہ عھد کرتے ہیں کہ قیامت میں بھی ایک دوسرے کو یاد رکھیں گے ضمنی طور پر اسلامی بھائی چارے کے حقوق چونکہ بہت زیادہ ہیں لہذا ان کی رعایت کیلئے خاص توجہ کی ضرورت ہے لہذا ان کے ادا نہ کرسکنے کی حلیت طلب کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ ایک مرتبہ پھر اپنے آپ کوحقوق کی ادا ئیگی کی طرف متوجہ کرتے ہیں ۔
صیغۂ اخوت پڑھنے کا طریقہ یہ ہے :
اپنے داہنے ہاتھ کو اپنے مو من بھا ئی کے داہنے ہاتھ پر رکھ کر کہو :
وآخَیتُکَ فِی اللہِ وصَافَیتُکَ فِی اللہِ وصَافَحْتُکَ فِی اللہِ وعَاھَدْتُ االلہَ وملا ئِکتَہ و کُتُبَہٗ وَ رُسُلَہٗ وَ اَنْبِیَائَہٗ والا ئِمۃَ الْمَعصُومِینَ علیھِمُ السَّلامِ عَلٰی اَنِّی اِنْ کُنْتُ مِنْ اَھْلِ الجَنَّۃِ وَالشَّفَاعَۃِ وَاُذِنَ لِیْ بِاَنْ اَدخُلَ الْجَنَّۃَ لا اَدْخُلُھَا اِلّا وَاَنْتَ مَعِیْ۔
(میں راہِ خدا میں تیرا بھائی ہوں ،اور راہِ خدا میں میں نے تجھ سے صفائی کی،اور راہِ خدا میں میں نے تجھ سے مصافحہ کیا،اور میں نے خدا سے اور اس کے ملائکہ، کتابوں، رسولوں، انبیاء اور ائمہ معصومین علیھم السلام سے عہد کیا ہے کہ میں اگر جنت والوں میں اور شفاعت والوں میں ہوا اور مجھ کو اجازت دی گئی کہ میں جنت میں داخل ہوجاؤں تو میں جنت میں تمہارے بغیر داخل نہ ہوں گا۔ )
پھر برادر مومن کہے :قبِلتُ (میں نے قبول کیا)۔ اس کے بعد کہے : اَسْقَطْتُ عَنْکَ جَمِیْعَ حُقُوْقِ الْاُخُوَّۃِ مَاخَلا الشَّفَاعَۃَ وَالدُّعَاءَ وَالزِّیَارَۃَ ۔( میں نے بھائی چارگی کے اپنے تمام حقوق تجھ سے اٹھا لئے(تجھ کو بخش دئے )سوائے شفاعت ،دعا اور زیارت کے۔)/۹۸۹/ف۹۵۵/