رسا نیوز ایجنسی کے مشہد کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق امام رضا علیہ السلام کے روضہ مبارک کے متولی حجت الاسلام والمسلمین سید ابراہیم رئیسی نے حضرت امام علی رضا علیہ السلام اور گفتگوئے ادیان کانفرنس کی پہلی میٹنگ میں کہ جو روضہ کی لائبریری کے قدس ہال میں منعقد ہوئی بیان کیا : حضرت امام علی رضا علیہ السلام ادیان کے درمیان گفتگو کے بانی تھے ۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا : ہم کو امید ہے کہ ان موضوعی پر اس جلسلہ میں پہلے سے طے شدہ مطالب پر احسن اور بہت اچھے طریقے سے گفتگو کرسکیں گے۔
امام رضا علیہ السلام کے روضہ کے متولی نے کہا : ادیان کے درمیان گفتگو حقیقت کی نورانیت کو سب کے لیے آشکار کردے گی اور ادیان کے درمیان غلط و نادرست افکار و تفکرات کو ختم کردے گی، اس طرح توحیدی و ابراہیمی ادیان کو تقویت حاصل ہوگی ۔
انہوں نے بیان کیا : عیسائیت و یہودیت کے ساتھ اسلام کے بہت زيادہ اشتراکات ہیں لیکن صیہونیزم کے ساتھ اور ان لوگوں کے ساتھ کہ جو ظاہرا دینداری کے مدعی ہیں جب کہ دین پر چوٹ لگاتے ہیں ، کوئی اشتراک و رابطہ نہیں رکھتے۔
حجت الاسلام سید رئیسی نے کہا : گفتگوئے ادیان کے ذریعہ ان لوگوں کے مقابل کہ جو عقلانیت و عدالت سےمنحرف ہوکر زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں، استقامت کی جاسکتی ہے ۔
انہوں نے دین سے سیاست کو جدا کرنے کے نتائج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : مغربی ممالک میں عقلانیت کے نام پر 300 سال سے زیادہ سے دین سے جنگ ہورہی ہے کہ جس کے نتیجے میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم اور فلسطین کی عوام پر ظلم و ستم ، ایٹمی میزائل وغیرہ سیاست کو دین سے جدا کرنے کا نتیجہ ہے ۔
حوزہ علمیہ مشہد کے استاد نے تاکید کی : حقیقت میں امام خمینی (رہ) کی رہبریت و تدبیر کے ساتھ ایران میں قیام، انسانی کرامت کے پرچم اور دین و سیاست میں اتحاد سے زندگی کے تمام شعبوں میں بیداری آئی ہے اور یہ اہتمام خداوندعالم کی ذات پر ایمان اور خلاق، عدالت، محبت اور عقلانیت کے ساتھ انجام پایا ہے ۔
سید ابراہیم رئیسی نے بیان کیا : ادیان کے درمیان گفتگو کے کچھ شرائط ہیں۔ سب سے پہلی شرط توحید ومبداء میں اتحاد ہے ۔ ابراہیمی ادیان کے درمیان آپس میں بہت زیادہ مشترکات پائے جاتے ہیں کہ جن میں توحید و خداپرستی، معاد و قیامت پر ایمان، رسولوں کا مبعوث ہونا، عدالت و محبت اور خداسے محبت کرنا اور خدا کی قربت حاصل کرنے کے لیے دوسروں کی خدمت وغیرہ ان مشترکات میں شامل ہیں۔
انہوں نے کہا : ادیان کے درمیان گفتگو کی دوسری شرط مقصد میں اتحاد کا ہونا ہے ۔ اصلی مقصد انسان کی نجات اور تکامل ہے ۔ انبیاء الہی کا مقام و مرتبہ بہت بلند و بالا ہے اور یہ مقام ہم کو بھی بلندی کی طرف دعوت دیتا ہے ۔ عصر حاضر میں انسانی کرامت مقصد میں اتحاد کا پایا جانا ہے۔ اکتسابی کرامت ان تعلیمات کا نتیجہ ہے کہ جو آئمہ اطہار علیہم السلام سے ہم تک پہنچی ہیں۔
روضہ امام رضا علیہ السلام کے متولی نے ادیان ابراہیمی کے درمیان گفتگو کی ایک اور شرط اس گفتگو میں انتہائی کوشش اور اس سے کما حقہ استفادہ میں اہتمام کو قراد دیتے ہوئے کہا : یہ کانفرنسز بہت مفید ہیں لیکن بہت زیادہ کوشش و اہتمام کی اہتمام کی ضرورت ہے ۔ ان تمام شرائط کا تحقق عالم آل محمد(ع) حضرت امام علی رضا علیہ السلام اور انسان کامل کے زیر سایہ متحقق ہوسکتا ہے۔
حجت الاسلام سید ابراہیم رئیسی نے بیان کیا : حضرت اما م علی رضا علیہ السلام کے زیارت نامہ میں مذکور ہے کہ آپ حضرت آدم، حضرت ابراہیم، حضرت موسی ، حضرت عیسی اور حضرت محمد علیہم السلام کے وارث ہو ہم آپ کے حسب و نسب اور اصالت سے واقف ہیں۔ ہم ان کی اتباع اور ان کی نورانیت کی پیروی کرتے ہوئے اتحاد و انسجام کے راز سے کفر و الحاد کے مد مقابل ظلم و ستم کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔/۹۸۹/ف۹۷۰