رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلی محبوبہ مفتی نے ہندوستان میں کشمیریوں کے متعلق موجودہ صورت حال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : پلوامہ حملے کے بعد کوئی کسی کی بات سننے کو تیار نہیں، ہندوستانی فوج کی تعداد بڑھانے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔
انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا : پلوامہ حملے میں فوجیوں کی ہلاکتوں کا سارا غصہ کشمیریوں پر نکالا جا رہا ہے، ہر طرف کشمیری طلبہ اور تاجروں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ جب دو ملک لڑتے ہیں تو کشمیریوں پر مصیبت آ جاتی ہے۔ پلواما کے بعد ہزاروں کشمیری بچے کشمیر واپس آنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ کشمیری تاجر کو پورت ملک میں حراساں کیا جا رہا ہے ۔
محبوبہ مفتی نے کہا : ہر انتخابی سال کی طرح اس سال بھی بدقسمتی سے کشمیر کو الیکشن میں بری طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ افضل گرو کو ۲۰۱۴ء کے الیکشن سے پہلے پھانسی دی گئی۔ افضل گرو پھانسی کے عدالتی فیصلے کا خمیازہ کشمیر کو بھگتنا پڑا۔ اب الیکشن تک نجانے کیسا ماحول ہو، ہمارے سر پر تلوار لٹک رہی ہے، جنگ کی باتیں ہو رہی ہیں، کشمیری عوام بہت مشکل میں ہیں۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا : کشمیر پر واجپائی کے دور میں اچھی پیش رفت ہوئی تھی۔ نریندر مودی نے نواز شریف کو حلف برداری میں بلایا اور خود لاہور گئے لیکن بدقسمتی سے پٹھان کوٹ اور اڑی کے بعد معاملات بگڑے۔
جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلی نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا : پاکستان ہندوستانی حکومت کو آمادہ کرے کہ جذباتی فیصلہ نہ کرے۔ ایسی تدبیر کی جائے کہ ٹکراؤ نہ ہو، کشمیریوں کا بھلا ہو جائے گا۔ جنگ مسئلے کا حل نہیں، بات ہو سکتی ہے تو جنگ میں کیوں جائیں۔ موجودہ ماحول میں امن کی سوچ رکھنے والوں کو آگے آنا چاہیے۔ امریکا بھی اتنے برسوں بعد بھی افغانستان میں مذاکرات کر رہا ہے۔ عمران خان نے کہا تھا کہ ثبوت دیں تو ایکشن ہو گا، امید ہے ایسا ہی ہو گا۔
انہوں نے کہا : پلوامہ حملے کے بعد بہت سختی ہو گئی ہے، غصہ کشمیریوں پر نکالا جا رہا ہے۔ پکڑ دھکڑ اور گرفتاریاں درست نہیں، جمہوریت میں ایسا نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ میں کشمیر سے متعلق ۳۵ اے کا کیس چل رہا ہے۔ کشمیریوں کو تنگ نہ کرنے کے عدالتی حکم پر شکر گزار ہیں۔
محبوبہ مفتی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا : گزشتہ ۳۰ سال میں مسئلہ کشمیر نے تشدد کی شکل اختیار کر لی ہے۔ جموں و کشمیر میں فوج کی تعداد بڑھانے سے معاملات مزید الجھیں گے۔ ایسا حل نکالنا ہو گا جو کشمیریوں، بھارت اور پاکستان کو قابل قبول ہو۔
جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلی نے موجودہ بر سر اقتدار پارٹی کے ساتھ مل کر بنائی گئی حکومت کے شرائط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : بی جے پی نے شرائط مانی تھیں تب ہی اتحادی حکومت بنائی تھی۔ بی جے پی سے اتحاد میں کئی علاقوں سے فوج کو نکالنا طے ہوا تھا۔ بی جے پی کے ساتھ طے پایا تھا کہ آرٹیکل ۳۷۰ میں ردوبدل نہیں کیا جائیگا۔ میری حکومت کو بھی کریک ڈاؤن کا کہا تھا مگر میں نے انکار کر دیا۔ میں نے آرٹیکل ۳۷۰ اور آرٹیکل ۳۵ اے کو ہاتھ نہ لگانے دیا۔ جب میں حکومت میں تھی میں نے کہیں اپنا موقف نہیں بدلا۔
واضح رہے کہ پلوامہ دہشت گردانہ حملہ کے بعد کشمیری عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے، پورے ہندوستان میں کشمیریوں کے ساتھ زیادتی کی جا رہی ہے، متعدد کشمیری تشدد کی وجہ سے اپنا کار و بار چھوڑ کر کشمیر بھاگ گئے ہیں ان کا مال لوٹ لیا گیا یے ، بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ آخر اس طرح کا دہشت گردانہ عمل و پاکستان و کشمیر سے حالات انتخابات کے زمانہ میں کیوں خراب ہوتے ہیں اور بعض کا کہنا ہے کہ یہ حملہ کسی سازش کا پیش خیمہ لگ رہا ہے کیوں کہ اس حملہ کی نوعیت قابل تفتیش ہے اور انتخابات کے بعد سب مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا۔/۹۸۹/ف۹۷۰/