رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے ایران کے خلاف امریکی صدر ٹرمپ کے ٹوئٹ پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بی ٹیم کے اکسانے پر امریکی صدر ٹرمپ ایسا کام کرنے کی امید لگائے بیٹھے ہیں کہ جسے اسکندر، چنگیز اور دیگر حملہ آور انجام دینے میں ناکام رہے ہیں اور انھیں شکست کا منھ دیکھنا پڑا ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ نے ٹرمپ کو یاد دہانی کرائی ہے کہ ایرانی قوم ہزاروں سال سے کامیابی و سرافرازی کے ساتھ ڈٹی ہوئی ہے اور جارح قوتوں کو میدان چھوڑ کر بھاگنا پڑا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اقتصادی دہشت گردی اور نسل کشی کی رجز خوانی کرنے سے ایران کا کام تمام نہیں ہو گا کبھی کسی ایرانی کو دھمکی مت دینا، احترام سے پیش آکے دیکھو احترام کا جواب صحیح ملتا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے پیر کو صبح سویرے اپنے ایک ٹوئٹ میں ایران پر جنگ پسندی کا الزام عائد کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ جنگ سے ایران کا کام تمام ہو جائے گا۔
امریکی صدر نے ٹوئٹ کیا ہے کہ ایران اگر جنگ کا خواہاں ہے تو یہ اس کے خاتمے کے مترادف ہوگا کبھی امریکہ کو مت دھمکاؤ۔امریکی صدر ٹرمپ نے اسی طرح فاکس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایران سے جنگ کے خواہاں نہیں ہیں۔
ٹرمپ نے کہا کہ ایران سے جنگ کرنے کا وہ کوئی ارادہ نہیں رکھتے تاہم انھوں نے کہا کہ ایران کو ایٹمی ہتھیار بھی نہیں رکھنے دیا جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ وہ جنگ نہیں چاہتے لیکن جب ایران جیسا ملک سامنے ہو تو اس بات کی اجازت بھی نہیں دی جاسکتی کہ وہ ایٹمی ہتھیار کا حامل بنے اور وہ ان ہتھیاروں کو اپنے پاس رکھے۔
امریکی صدر نے یہ بھی کہاکہ ان تمام مسائل کے باوجود وہ جنگ نہیں چاہتے اس لئے کہ جنگ سے معیشت متاثر ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جنگ انسانوں کے قتل عام کا باعث بنتی ہے۔یہ ایسی حالت میں ہے کہ امریکی فوج نے حالیہ ہفتوں کے دوران ایران پر علاقے میں فوجی نقل و حرکت بڑھانے کا الزام عائد کرتے ہوئے علاقے میں اپنا ابراہم لنکن بحیری بیڑا اور بی باون بمبار طیارے بھیجنے کا اقدام کیا ہے۔
تہران نے واشنگٹن کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے اس قسم کی خبروں کو نقسیاتی جنگ سے تعبیر کیا ہے۔بعض مبصرین ایران کے خلاف امریکہ کی حالیہ فوجی نقل و حرکت کی ایک ایسے تکنیکی دائرے میں توجیہ پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ امریکہ نے تجارت کے میدان میں سودا کرنے والے فریق پر دباؤ ڈالنے کے لئے اس سے بہتر طور پر استفادہ کیا ہے۔
چناچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس قسم کی اصطلاحات مقابل فریق کے اندازے غلط دکھانے اور اس پر دباؤ بڑھا کر اور تسلیم ہوجانے پر مجبور کر کے اس سے مراعات لینے کے مترادف ہیں جبکہ ان میں سے ایک نظریہ بزدلی کی علامت اور دوسرا دیوانگی کا مظہر ہے۔
دوسری جانب ایران نے اپنے موقف کو کھل کر بیان کر دیا ہے کہ ایران کسی سے جنگ نہیں چاہتا لیکن اگر کسی بے غلطی کی تو اس کا ڈٹ کر جواب دے گا ۔