رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر علامہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے عظمت توحید بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر کام کا آغاز اللہ کے نام سے ہو اور ہر کام اللہ کیلئے ہونا چاہئے۔
انہوں نے کہا: یہ توحید میں اخلاص کی حد ہے کہ شرک کو ناقابل معافی گناہ قرار دیا گیا۔ پیغمبر اکرم کی دعوت اور عبادت فقط خدا کیلئے تھی۔ ان کی تعلیمات کا خلاصہ توحید پرستی اور ہر حال میں اللہ کو پیش نظر رکھنا ہے۔
علامہ حافظ ریاض نجفی نے کہا: اللہ تعالیٰ کی قدرت ِ کاملہ اور عظمت ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ امیر، غریب، بادشاہ، سرمایہ دار، مسلمان اور غیر مسلمان تمام انسان اللہ کے سامنے فقیر اور اس کے محتاج ہیں۔ انسانوں کا خالی ہاتھ دنیا میں آنا اور خالی ہاتھ جانا اِسی بات کا ثبوت ہے۔ زندگی کے تمام میدانوں، خصوصاً حکومت سے متعلقہ امور میں اصول پرستی کی شدید ضرورت ہے۔ جامع علی مسجد جامعتہ المنتظر لاہور میں خطبہ جمعہ میں انہوں نے کہا کہ یکم اگست کو سینیٹ میں جو کچھ ہوا یہ اصول پرستی کا فقدان اور ناپختہ کاری ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیا 22 کروڑ عوام کے نمائندوں کو ایسا ہونا چاہیے؟ لازم ہے کہ یہ نمائندے ہر لحاظ سے بالغ النظر، اصول پرست اور مثالی نمونے ہوں لیکن جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔
انہوں نے نماز جمعہ کے اجتماع میں قرارداد مذمت کی منظوری دیتے ہوئے نائجیریا کے بزرگ عالم دین الشیخ ابراہیم زکزاکی کی رہائی کیلئے مظاہرہ کرنیوالوں پر پولیس حملہ کے نتیجہ میں 10 افراد کی شہادت اور سانحہ کی مذمت کی گئی اور ان کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔
علامہ حافظ ریاض نجفی نے تاکید کی : قرارداد میں بحرین میں دو نوجوانوں کو سرکاری تحویل میں تشدد سے شہید کرنے کا بین الاقوامی اداروں، حکومت پاکستان، سیاسی و مذہبی جماعتوں سے نوٹس لینے اور نائجیریا اور بحرین میں جاری اِن مظالم کیخلاف آواز بلند کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ خطبہ جمعہ میں حافظ ریاض نجفی نے کہا کہ اعلان ِ بعثت سے پہلے بھی رسول اللہ فقط ایک خدا کی عبادت کرتے تھے، جس میں اُن کیساتھ حضرت خدیجہ(س) اور امیرالمومنین حضرت علی ؑہوا کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ حضرت آدم ؑ کے قصہ میں بہت زیادہ عبرتیں ہیں۔ وہ بہت عظمت کے مالک تھے لیکن ایک چھوٹی سی بات کی وجہ سے انہیں جنت سے نکلنا پڑا۔ اِس میں ہمارے لیے یہ درس ہے کہ فقط صراط مستقیم پر چلیں اور ابلیس کے کسی بہکاوے میں نہ آئیں۔ قرآن مجید میں ابلیس کے بارے الفاظ ہیں کہ ”کان من الکافرین“ وہ کافروں میں سے تھا۔
انہوں نے کہا کہ جس کی ایک تشریح یہ کی جاتی ہے کہ وہ دراصل تھا ہی کافر لیکن عبادات کی وجہ سے اس کا کفر دب گیا تھا اور جب اللہ تعالیٰ نے اسے آزمایا تو اس نے نافرمانی کی، تکبر کیا اور اس کا چھپا ہوا کفر ظاہر ہو گیا۔ حضرت آدم ؑ کے بارے بھی قرآنی آیات کو صحیح طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ان کا اپنے اوپر ظلم کے اعتراف کا مطلب اپنے نقصان کا اعتراف ہے۔ ظلم یعنی نقصان، کہ وہ پہلے جنت میں تھے، ہر قسم کی نعمت سے مستفید تھے مگر ابلیس کے بہکاوے میں آکر نعمات ِ جنت سے محروم ہو کر نقصان اٹھایا۔ ابلیس کے تکبر کی اہم وجہ اس کا یہ قیاس تھا کہ آگ مٹی سے افضل ہے چونکہ آگ اوپر کی طرف جاتی ہے جبکہ مٹی پستی کی طرف گرتی ہے چونکہ وہ آگ سے بنا ہے لہٰذا وہ مٹی سے بنائے ہوئے آدم سے افضل ہے۔ امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے قیاس کرنیوالا ابلیس تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ زندگی کے تمام میدانوں، خصوصاً حکومت سے متعلقہ امور میں اصول پرستی کی شدید ضرورت ہے۔
علامہ حافظ ریاض نجفی نے بیان کیا: اِس میدان میں آنے والوں کی بنیاد اچھے اصولوں کی پابندی اور اس پر استقامت سے قائم رہناہے۔ امیر المومنین حضرت علی ؑ کو جب چند شرائط ماننے کی بنا پر وہ وسیع و عریض اسلامی حکومت سنبھالنے کی پیشکش کی گئی جس کی سرحدیں ملتان و ہندوستان تک پھیلی ہوئی تھیں تو آپ نے صاف انکار فرما دیا۔ گویا ان کے نزدیک اصول اہمیت رکھتے تھے نہ کہ وسیع و عریض حکومت۔ /۹۸۸/ ن