تحریر: عظمت علی
اللہ تعالٰی نے بنی نوع انسانی پر بہت سارے اعمال فرض کئے ہیں تاکہ وہ اس کی بجا آوری سے وہ مطیع خدا بن جائے۔ حج انہی میں سے ایک ہے۔ یہ ایک متحدانہ عمل ہے جو ساری دنیا کے خدا پرستوں کو دعوت اتحاد دیتا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کے ذہن میں اس حقیقت کو تازہ کرتا ہے کہ ان کی نسلیں اور قومیں خواہ الگ الگ ہوں مگر ایک خدا پر عقیدہ ان کے عالمی اتحاد کی مضبوط بنیاد ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ دشنمان اسلام کی طرف سے یہ جملہ مشہور ہے کہ جب تک حج کی رونق برقرار ہے ہم ان پر کامیابی حاصل نہیں کر سکتے۔ ایک دانشور کہتا ہے کہ مسلمانوں کی حالت پر افسوس ہے کہ اگر وہ حج کا معنی و حقیقت نہ سمجھ سکیں اور دوسروں پر بھی افسوس ہے کہ اگر وہ اس کا معنی سمجھ لیں۔ حج ایک واجبی عبادت ہے جو صرف صاحب استطاعت پر فرض ہے۔ علمائے اسلام نے اس سے مراد مالی اور جسمانی استطاعت کے لئے ہیں۔ اس کے علاوہ استطاعت عملی (اسے معلوم ہو کہ کیا کرنا چاہیئے) اور استطاعت اخلاقی (اسے معلوم ہو کہ کس طرح انجام دینا چاہیئے) بھی ہے۔ مزید وہ تمام احکام ہیں جو فقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں۔
کعبہ اصل میں مادہ 'کعب' سے مشتق ہے، جس کا معنی ہیں پاؤں کے اوپر کی ابھری ہوئی جگہ۔ بعد ازاں یہ لفظ ہر قسم کی بلندی اور ابھری ہوئی چیز کے لئے استعمال ہونے لگا اور مکعب کو اسی لئے مکعب کہا جاتا ہے کہ وہ چاروں طرف سے ابھرا ہوا ہوتا ہے۔ بہرحال کعبہ لفظی اور معنوی دونوں اعتبار سے عظمت و فضیلت کا مرکز ہے۔ اس کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ روایات میں اسے خراب اور ویران کرنے کو پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفٰی ﷺ اور امام معصومین علیہم السلام کے قتل کے مساوی قرار دیا گیا ہے۔ امام محمد باقر علیہ السلام ؑ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا، "ولا ینبغی لاحدان یرفع بناء فوق الکعبۃ" کسی شخص کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنا گھر کعبہ سے اونچا بنائے۔ (وسائل الشیعہ، کتاب الحج، ابواب مقدمات الطواف وما یتبعھا، باب کراھۃ رفع البناء بمکۃ فوق الکعبۃ، و تحریم دخول المشركين الیھا)۔ نہج البلاغہ میں مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں، خداوند عالم نے اپنے گھر کو ایک خشک جلی ہوئی اور سخت پہاڑوں کے درمیان والی زمین میں قرار دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ اسے بہت ہی سادہ مصالحہ سے بنایا جائے یعنی عام اور معمولی پتھر سے۔
آپ ایک دوسرے مقام پر اپنی وصیت میں فرماتے ہیں ـ: "اللہ اللہ فی بیت ربکم لا تخلوہ ما بقیتم فانہ ان ترک لم تناظروا"۔ تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں جب تک تم زندہ رہو خانہ خدا سے دستبردار نہ ہونا کیوںکہ اگر اس کی زیارت متروک ہوگئی تو مہلت نہیں دی جائے گی اور تمہارا وجود خطرہ میں پڑ جائے گا۔ (نہج البلاغہ مکتوب 47) آیات و روایات کے اعتبار سے حج بیت اللہ کی فضیلت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ روایت میں وارد ہوا ہے کہ اس کو ترک کرنا کفر کے مترادف ہے، جیسا کہ مرحوم شیخ صدوق نے اپنی کتاب من لایحضرہ الفقیہ میں رسالت مآب سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے حضرت علی علیہ السلام ؑ سے فرمایا: "یا علی! "تارک الحج و ھو المستطیع کافر یقول اللہ تبارک و تعالٰی و للہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا و من کفر فان اللہ غنی عن العالمین۔ یا علی !من سوف الحج حتٰی یموت بعثہ اللہ یوم القیامۃ یہودیا او نصرانیا"۔ اے علی! جو شخص حج ترک کرے باوجود یکہ وہ استطاعت رکھتا ہو تو وہ کافر شمار ہوگا کیوں کہ خد افرماتا ہے کہ استطاعت رکھنے والوں پر خدا کے گھر کا حج بجا لانا ضروری ہے اور جو کفر اختیار کرے تو اس نے اپنا نقصا ن کیا ہے اورخدا ان سے بے نیاز ہے۔اے علی! جو حج میں تاخیر کرے یہاں تک کہ دنیا سے کوچ کرجائے تو خدا اسے قیامت کے دن یہودی یا نصرانی محشور کرے گا۔ (من لا يحضره الفقيه 4، 257 ـ 266، 821 (سورہ آل عمران 79)۔
لفظ حج قرآن مجید میں دس مقامات پر آیا ہے جس میں کسی نہ کسی حکم یا معاملہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان میں سے بعض کا ذکر کیا جارہا ہے۔
(1)۔ نمائندہ توحید حضرت ابراہیم خانہ کعبہ کی تعمیر کر چکے تو ایک عام اعلان کے ذریعہ دنیا کے لوگوں کو اس مقدس مقام کی زیارت کی دعوت دی، "و اذن فی الناس بالحج یاتوک رجالا وعلیٰ کل ضامر یاتین من کل فج عمیق۔ (حج 27)
اور لوگوں کے درمیان حج کا اعلان کردو کہ لوگ تمہاری طرف پیدل اور لاغر سواریوں پر دوردراز علاقوں سے سوار ہوکر آئیں۔
(2)۔ اسلام میں حج کے واجب ہونے کا تذکرہ سورہ آل عمران میں اس طر ح مذکور ہے، و للہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا۔ (آل عمران 97) اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج واجب ہے اگر اس راہ کی استطاعت رکھتے ہوں۔
(3)۔ وہ ماہ جن میں حج انجام دیا جاتا ہے، "الحج اشھر معلومات"۔ حج چند مقررہ مہینوں میں ہوتا ہے۔
(4)۔ حدود و شرائط اور اعمال جو مراسم حج میں انجام دینا چاہیئے، "و اتمو الحج و العمرۃ للہ فان احصرتم فما استیسر من الھدی ولا تحلقوا رؤسکم حتٰی یبلغ الھدی محلہ فمن کان منکم مریضا او بہ اذًی من راسہ ففدیۃ من صیام او صدقۃ او نسک فاذا امنتم فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج فما استیسر من الھدی فمن لم یجد فصیام ثلٰثۃ ایام فی الحج و سبعۃ اذا رجعتم تلک عشرۃ کاملۃ ذٰا لک لمن لم یکن اھلہ حاضری المسجد الحرام واتقو اللہ واعلمو ان للہ شدید العقاب"۔(بقرہ 196)
حج اور عمرہ کو اللہ کے لئے تمام کرو، اب اگر گرفتار ہو جاؤ تو جو قربانی ممکن ہو وہ دے دو اور اس وقت تک سر نہ منڈاؤ، جب تک قربانی اپنی منزل تک نہ پہنچ جائے۔ اب جو تم میں سے مریض ہے یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہے، تو وہ روزہ یا صدقہ یا قربانی دیدے پھر جب اطمینان ہو جائے، تو جس نے عمرہ سے حج تمتع کا ارادہ کیا ہے وہ ممکنہ قربانی دیدے اور قربانی نہ مل سکے تو تین روزے حج کے دوران اور سات واپس آنے کے بعد رکھے کہ اس طرح کہ دس پورے ہو جائیں۔ یہ حج تمتع اور قربانی ان لوگوں کے لئے ہے، جن کے اہل مسجد الحرام کے حاضر شمار نہیں ہوتے ۔اور اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ یاد رکھو کہ خدا کا عذاب بہت سخت ہے۔
(5)۔ فلسفہ اجتماع اور اس کے فوائد:
لیشھدو ا منافع لھم (حج 28)
تاکہ اپنے منافع کا مشاہدہ کریں۔
اعمال عمرہ و حج:
میقات سے احرام باندھنا یعنی عہد کرنا کہ جو چیز محرم کے لئے حرام ہے اس سے پرہیز کرنا او ر صدائے لبیک کہتے ہوئے بیت اللہ کی طرف روانہ ہو جانا۔ سات مرتبہ طواف خانہ کعبہ اس کے بعد مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز ادا کرنا، بعد ازاں سعی صفا و مروہ کہ یہ مکہ کی دو چھوٹی سی پہاڑیوں کے نام ہیں اور دونوں مقام ایک دوسرے سے تقریبا 240 میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ اس وقت یہ فاصلہ ایک چھتے ہوئے بڑے ہال کے نیچے موجود ہے اور حجاج کرام اس چھت کے نیچے سعی کرتے ہیں۔ صفا کی بلندی پندرہ میٹر اور مروہ کی بلندی آٹھ میٹر ہے۔ اس کے بعد بال یا ناخن تراش کر احرام سے خارج ہوتے ہیں۔ مراسم حج بجا لانے کے لئے مکہ میں احرام باندھتے ہیں۔ نویں ذی الحجہ کو مکہ سے چار فرسخ دور بیابان عرفات کی طرف جاتے ہیں، اس دن زوال تا غروب آفتاب وہاں قیام کرتے ہیں اور پروردگار سے دعا کرتے ہیں۔ وہاں سے مشعرالحرام کی جانب کوچ کرتے ہیں، یہ مقام مکہ سے ڈھائی فرسخ دور ہے۔ پوری رات اس مقدس مقام پر بسر کرتے ہیں اور طلوع آفتاب کے وقت اس سرزمین سے منٰی کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔ یہ مقام مشعرالحرام سے قریب ہی ہے۔ یہ عید قربان کا دن ہے اسی روز ایک جگہ ’’جمرہ عقبہ‘‘ پر سات کنکریاں مارتے ہیں۔ قربانی کرتے ہیں اور سر منڈا کر احرام سے خارج ہو جاتے ہیں اور پھر مکہ کی طرف پلٹتے ہیں۔ وہاں طواف خانہ خدا، نماز طواف، صفا و مروہ کے درمیان سعی، طواف منٰی و نماز طواف منٰی بجا لاتے ہیں۔ گیارہویں اور بارہویں کی درمیانی شب منٰی میں گذارتے ہیں۔ مذکورہ اعمال صرف اشارۃ بیان کیا گیا ہے، حج بیت اللہ کے مکمل اعمال کتابوں میں ذکر ہیں۔ آج اطراف عالم سے لاکھوں لوگ حج بیت اللہ کی زیارت سے شرفیاب ہوتے ہیں اور دنیا کو پیغام دیتے ہیں کہ ہم ایک اللہ کے ماننے والے ہیں اور ہم سب ایک ہی۔