اهلبیت (ع) فاونڈیشن کے نائب سربراہ حجت الاسلام تقی عباس رضوی نے رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر سے گفتگو میں ایام شب قدر کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا : خداوند رحیم نے اپنے بندوں پر خاص لطف قرار دیا اور مغفرت و درجات کی بلندی کے لئے یہ عظیم مہنیہ و شب مرحمت فرمائی ہے ۔
انہوں نے سورہ مبارکہ قدر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وضاحت کی : بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ، وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ، لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ... بے شک ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیا اور تم کو کیا معلوم شب قدر کیا ہے شب قدر (مرتبہ اور عمل میں)ہزار مہینوں سے بہتر ہے.... یقیناً شب قدر کی اہمیت و عظمت کو سمجھنے کے لئے یہی کافی ہے کہ خداوندعالم نے اسکی فضیلت کو بتانے کے لئے مستقل طور پر ایک مکمل سورہ الگ سے نازل کردیا تاکہ امت مسلمہ کو اس کی اہمیت و عظمت کا اندازہ ہوسکے کہ یہ کیسی مقدس و بابرکت رات ہے ۔
اهلبیت (ع) فاونڈیشن کے نائب سربراہ نے تاکید کرتے ہوئے کہا : سورہ مبارکہ قدر قرآن کا 97 واں سورہ ہے جو پانچ آیتوں پر مشتمل ہے جن میں نزول قرآن کے تذکرے کے ساتھ ساتھ فرشتوں کے نزول اور شب قدر کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اسے ہزار مہینے کی راتوں سے افضل بتایا گیا ہے یقیناً یہ راتیں اتنی مقدس اور متبرک ہیں کہ سال کی دیگر با فضیلت راتیں بھی ان راتوں کے آگے ماند نظر آتی ہیں!
انہوں نے شب قدر کی مقام و منزلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : خداوندعالم کے نزدیک تمام راتوں میں جو رات قدر و منزلت کی حامل قرار پائی وہ لیلۃ القدر ہے جو بندوں کو اللہ کی رحمت سے قریب کردینے والی ہے لہذا اس خیر و برکت کی رات کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں... قدر کا معنی مرتبہ کے ہیں چونکہ یہ رات باقی راتوں کے مقابلے میں شرف و مرتبہ کے لحاظ سے بلند ہے، اس لئے اسے ’’لیلۃ القدر‘‘ کہا جاتا ہے۔
سید تقی عباس رضوی نے بیان کیا : اس رات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک سال کی تقدیر و فیصلے کا قلمدان فرشتوں کو سونپا جاتا ہے، اس وجہ سے یہ ’’لیلۃ القدر‘‘ کہلاتی ہے ۔ نیز قدر کا معنی تنگی کا بھی آتا ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے اسے قدر والی کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس رات آسمان سے فرش زمین پر اتنی کثرت کے ساتھ فرشتوں کا نزول ہوتا ہے کہ زمین تنگ ہوجاتی ہے ۔
انہوں نے وضاحت کی : اسی رات کو اللہ تعالیٰ نے ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا ہے۔ ہزار مہینے کے تراسی برس چار ماہ بنتے ہیں‘اب جس شخص کی یہ ایک رات عبادت میں گزری گویا ‘اس نے تراسی برس چار ماہ کا زمانہ عبادت میں گزار دیا اور تراسی برس کا زمانہ کم از کم ہے کیونکہ ’’خیر من الف شھر‘‘ کہہ کر اس امر کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ کریم جتنا زائد اجر عطا فرمانا چاہئے گا، عطا فرما دے گا۔ لہٰذا ان شبوں میں نیکیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے، ایک دوسرے کی خطاؤں اور ناگوار باتوں کو عفو و در گزر کرنے اور جملہ عالم انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے خاص اپنے عزیز و اقارب جو زندہ ہیں ان کی صحت و سلامتی اور جو مرحوم ہیں ان کی بخشش و مغفرت کے لئے خلوص دل سے دعائیں مانگیں،اپنے طرزِ عمل پر غور و فکر کریں۔
اهلبیت (ع) فاونڈیشن کے نائب سربراہ نے ایک شعر پیش کرتے ہوئے کہا : ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے / زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے ۔ سال گزشتہ نہ جانے کتنے لوگ ہماری معیت میں تھے جو، اب ہمارے ساتھ موجود نہیں ہیں، موت کے پنجہ نے انہیں آدبوچا اور اب وہ اس شب کے فیضان سے محروم ہیں! ۔ جس شخص نے شب قدر میں اجر و ثواب کی امید سے عبادت کی، اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں اور جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا، گویا وہ سارے خیر سے محروم رہا! ۔
انہوں نے خداوند کریم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بیان کیا : خدا کا صد شکر ہے کہ اس نے ہمیں مہلت عطا فرمائی، ہمیں چاہئیے کہ اس فرصت کو غنیمت جانیں... انہی راتوں کے طفیل ہماری دعاؤں کی قبولیت ہے اور انہی راتوں میں کئے گئے سجدوں اور دعاؤں کے طفیل ہی ہماری آئندہ زندگی میں امن و چین، راحت و سکون، مسرت و خوشی اور صحت و سلامتی میسر ہے لہٰذا میرے معزز دوستو! ۔
شیعہ ٹوڈے کے سربراہ نے تاکید کرتے ہوئے کہا : شب قدر کے ہر ساعات و لمحات کے قدرشناس بنیں اور اپنا زیادہ سے زیادہ وقت، اطاعت الہی میں صرف کرتے ہوئے صاحب قدر حضرت ولی عصر (امام مھدی) علیہ السلام کے ظہور کی دعائیں اور ان نامساعد حالات میں جہاں ساری دنیا کےلوگ خاص ہمارے ملک و سماج کے لوگ کروناوائرس کی وجہ سے کون سا ایسا دکھ و درد نہیں جس میں یہ مبتلا نہ ہوں غربت،افلاس، بھوک، بیماری اور مہنگائی و بے روزگاری... کے پریشان و مایوس کن ماحول میں ان سے مدد طلب کریں کی یہی وہ ہستی ہیں جو خداوندعالم کی رحمت و بخشش اور اس کے فضل و کرم کا وسیلہ ہیں، یہی وہ ذات والا صفات ہے جن کی اطاعت و فرمانبرداری، محبت اور معیت کی تاکید کی گئی ہے، یہی وہ ولی نعمت ہیں جو اسرار الہی کے محافظ، اس کی وحی کے مفسر، اس کے علم و نور کا خزانہ اور پوری عالم انسانیت کے نجات دہندہ ہیں انہی کے انتظار میں کائنات کا ذرہ ذرہ بے کل و بے قرار ہے۔
حجت الاسلام سید تقی عباس رضوی اپنی گفتگو کا اختمام شعر سے کیا : یہی آئیں گے تو دنیا کے سارے رنج و الم کا خاتمہ ہوگا، ساتھ ہمارے دکھ و درد کا مداوا بھی، یہ ایسی مقدس ہستی باغ رسالت پناہ کا ایسا گل زیبا ہے جو مظہر ذات نبوت اور شان رسالت کے حقیقی ورثے دار ہیں جو پورے عالم کے لئے نمونہ عمل ہیں۔
ہے ان کا ذکر مقدم جو بعد ذکر خدا
اسی سے ابتدا اور انتہا کرے بندہ
انہی کی ذات سے ہوتی ہے سب بلائیں دور
انہی کی ذات سے ہوتا ہے نعمتوں کا وفور.......