رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اس گریہ و زاری اور آہ و بکا کیساتھ اپنے دل و روح کو پاک و صالح بنا کر حکومت امامؑ کے لیے زمینہ سازی کرنے کیلئے آمادہ ہوتے ہیں، جیسے کہ دعا ندبہ میں امامؑ کی حکومت اور انکے جانثاروں کا ذکر آیا ہے: اٴَیْنَ مُعِزُّ الْاٴَوْلِیَآءِ وَ مُذِلُّ الْاٴَعْدَآءِ اٴَیْنَ جَامِعُ الْکَلِمَةِ عَلَی التَّقْوَی اٴَیْنَ بَابُ اللّٰہِ الَّذِی مِنْہُ یُوٴْتیٰ، اٴَیْنَ وَجْہُ اللّٰہِ الَّذِی إِلَیْہِ یَتَوَجَّہُ الْاٴَوْلِیَآءُ اٴَیْنَ السَّبَبُ الْمُتَّصِلُ بَیْنَ الْاٴَرْضِ وَ السَّمَآءِ اٴَیْنَ صَاحِبَ یَوْمِ الْفَتْحِ وَ نَاشِرُ رَایَةِ الْھُدیٰ "کہاں ہے دوستوں کو عزت دینے والا اور دشمنوں کو ذلیل کرنیوالا، کہاں ہے تمام کلمات کو تقویٰ پر جمع کرنیوالا، کہاں ہے وہ دروازہ فضل خدا، جس سے اسکی بارگاہ میں حاضر ہوا جاتا ہے۔ کہاں ہے وہ جو مظہر خدا کہ جسکی طرف حبدار متوجہ ہوں، کہاں ہے وہ سلسلہ جو زمین و آسمان کا اتصال قائم کرنیوالا ہے، کہاں ہے وہ جو روز فتح کا مالک ہے اور پرچم ہدایت لہرانے والا ہے۔"
تحریر: سیدہ ندا حیدر
ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ دعا کیا ہوتی ہے؟ اور اگر ہم دعا پڑھیں تو ہمیں اس کا کیا نتیجہ ملنا چاہیے۔؟
دعا کا مطلب: پکارنا یا صدا بلند کرنا
دعا پڑھنے کے درج ذیل مختلف موارد ہوتے ہیں، جیسا کہ:
* ہم حصول ثواب کی نیت سے دعا پڑھتے ہیں۔
* کسی منت کے لیے دعا پڑھتے ہیں۔
* مشکل سے نجات کے لیے دعا پڑھتے ہیں۔ وغیرہ۔۔۔
لیکن کلمہ "ندبہ" ان ذکر شدہ مقاصد کے برخلاف کسی اور مقصد کو بیان کرتا ہے، "ندبہ" عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معانی گریہ کرنا، آہ و زاری کرنا، میت پر گریہ کرنے والی صدا (کیونکہ اس موقع پر ایک خاص شدت غم میں انسان مبتلا ہوتا ہے) اور انسان کسی شدت مصیبت یا درد میں مبتلا ہو کر پکارے جس کی وجہ سے اس کے جسم کا ہر حصہ اس درد کو محسوس کرتا ہو تو اس احساس کو "ندبہ" کہتے ہیں۔
جیسا کہ دعائے ندبہ میں ہے: عَزِیزٌ عَلَیَّ اٴَنْ اٴَبْکِیَکَ وَ یَخْذُلَکَ الْوَرَیٰ، عَزِیزٌ عَلَیَّ اٴَنْ یَجْرِیَ عَلَیْکَ دُونَھُمْ مَا جَرَیٰ "مجھ پر گراں ہے کہ میں آپ کے لیے روؤں اور لوگ آپ کو چھوڑے رہیں، مجھ پر سخت ہے کہ لوگوں کی طرف سے آپ پر جو گزرے۔" اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دعا ثواب کے لیے نہیں اور نہ ہی کسی دنیاوی خواہش کے حصول کے لیے ہے بلکہ "دعا ندبہ" امام زمانہؑ سے عشق و محبت کا اظہار اور ان کے ظہور کی تڑپ ہے، جو کہ عاشق کی غیبت امام زمانہ علیہ السلام کے دوران ان کے فراق میں اس کے دل میں پیدا ہوتی ہے۔ دعا ندبہ پڑھنے والا شخص امام ؑ کی ہستی اور ان کی عدالت کی وجہ سے پوری دنیا میں عدل و انصاف اور ظلم و ستم کے خاتمہ کی خواہش رکھتا ہے۔ ایسے معاشرے کا خواہش مند ہوتا ہے، جس میں پوری دنیا میں دین حق قائم ہوگا اور اس کے دیکھنے کی تمنا و آرزو رکھتا ہے۔ یہ تقاضا بذات خود اہمیت کا حامل ہے۔ مَتیٰ تَرَانَا وَ نَرَاکَ وَ قَدْ نَشَرْتَ لِوَآءَ النَّصْرِ تُرَیٰ اٴَتُرَانَا نَحُفٌّ بِکَ وَ اٴَنْتَ تَوٴُمُّ الْمَلَاٴَ،وَ قَدْ مَلَاٴْتَ الْاٴَرْضَ عَدْلاً "کب آپ ہمیں اور ہم آپ کو دیکھیں گے جبکہ آپ کی فتح کا پرچم لہراتا ہوگا، ہم آپ کے اردگرد جمع ہوں گے اور آپ سبھی لوگوں کے امام ہوں گے، تب زمین آپ کے ذریعے عدل و انصاف سے پُر ہوگی۔"
معارف، درخشاں حقائق، روشن معانی اور عمیق مطالب جو بدیع و نوآوری کے اسلوب، بہترین و منطقی بیان بہت فصیح اور عظیم فقرات اس مبارک دعا میں وارد ہوئے ہیں، جو ہمیں ہر قسم کی سند اور حوالے سے بے نیاز کرتے ہیں کہ ایسے روشن حقائق اور درخشاں نکات، ہرگز کسی اور منبع و مصدر سے صادر نہیں ہوسکتے، اس کا سرچشمہ سوائے ولایت اور خاندان عصمت و طہارت حضرات ائمہ معصومین علیہم السلام کے صاف و شفاف چشمے کے کچھ اور نہیں ہوسکتا۔ دعائے ندبہ ہر جمعہ کی صبح میں مستکبرین عالَم سے اعلان نفرت اور ظلم و استبداد کے محلوں کو ویران کرنے والے کے ساتھ اور ایک عالمی حکومت کے عدل و آزادی کی بنیاد پر قائم کرنے والے سے تجدید بیعت کا نام ہے۔ دعائے ندبہ امام برحق، مصحف ناطق حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے دوستوں اور شیعوں کو تعلیم دی اور انہیں حکم دیا کہ اس دعا کو چار عظیم عیدوں یعنی عید فطر، عید قربان، عید غدیر اور عید جمعہ کے دنوں میں پڑھا کریں اور ہمیں حکم دیا کہ زمانہ غیبت میں اس دعا کے ذریعہ اپنے امام، محبوب آقا و مولا اور اپنے مقتدا کے ساتھ درد دل اور تجدید عہد کریں۔
جو شخص دعائے ندبہ سے مانوس ہو جائے اور دل کی گہرائی سے پیغمبر اکرم ص کے بر حق جانشینوں کی مظلومیت کو معلوم کرے، تو ان کی ولایت و حجت کی شمع اس کے دل میں روشن و منور ہوگی اور اس کا تمام وجود حجت خدا کی ضرورت کا احساس کرے گا۔ دعائے ندبہ حقیقت میں حجتوں اور اولیاء الہیٰ کے اس وسیع زمین پر حاضر رہنے کی مختصر تاریخ کی نشان دہی کرتی ہے۔ وہ سلسلہ جو حضرت آدم (ع) سے آغاز ہوا اور آخری حجت حضرت امام مہدی (ع) تک جاری رہے گا۔ یہ صرف زمانہ غیبت کے افراد ہی نہیں ہیں، جو ظلم و ستم سے رنجیدہ اور عاجز ہوچکے ہوں اور حجت خدا کے ظہور کے انتظار میں لحظہ شماری کر رہے ہوں، ان کی آتش فراق میں جل رہے ہوں اور ان کی غیبت کے طولانی ہونے کی وجہ سے خون کے آنسو رو رہے ہوں، بلکہ تمام پیغمبروں نے یوسفِ زہرؑا کی غیبت اور ظہور کے متعلق گفتگو کی ہے، ان کے فضائل و مناقب کا قصیدہ پڑھا، ان کے ظہور کے انتظار کے لیے اپنی اُمت کو نصیحت فرمائی ہے۔ اٴَیْنَ ابْنُ النَّبْیِّ الْمُصْطَفَیٰ، وَ ابْنُ عَلِیٍّ الْمُرْتَضیٰ، وَابْنُ خَدِیجَةَ الْغَرَّآءِ، وَ ابْنُ فَاطِمَةَ الْکُبْری۔۔۔، یَابْنَ السَّادَةِ الْمُقَرَّبِینَ، یَابْنَ النُّجَبَآءِ الْاٴَکْرَمِینَ "کہاں ہے وہ نبی مصطفیٰﷺ کا فرزند، علی مرتضیٰ علیہ السلام کا فرزند، خدیجہ پاک سلام اللہ علیہا کا فرزند، فاطمہ کبریٰ سلام اللہ علیہا کا فرزند مہدیؑ، ۔۔۔ اے خدا کے مقرب سرداروں کے فرزند، اے پاک نسل بزرگواروں کے فرزند۔"
گذشتہ انبیاء علیہم السلام، خود ذات پیغمبر اکرم،ﷺ امیر المومنین ؑاور تمام ائمہ معصومین علیہم السلام آفتاب امامت کے طلوع ہونے سے صدیوں پہلے حجت آخرالزمانؑ سے شدید عشق و محبت اپنے دل میں پوشیدہ رکھے ہوئے تھے اور حضرت ؑکے فراق میں تڑپ رہے تھے، نیز کبھی اس ماں کی طرح آنسو بہاتے تھے، جس نے اپنے جواں سال بچہ کا داغ دیکھا ہو، ان کی یاد کے ذریعے عشق و محبت کا اظہار کرتے تھے، ان کے دیدار کے مشتاق ہوتے تھے اور جو افراد حضرتؑ کے جمال آرائے عالم کے دیدار کی توفیق حاصل کریں گے، ان پر رشک کرتے تھے۔ آئمہ دین نہ صرف یہ کہ خود حضرتؑ کے فراق میں تڑپتے تھے بلکہ اپنے شیعوں اور عاشقوں کو حکم دیتے تھے کہ وہ بھی ہمیشہ عزیز زہرا ؑکے غائب فرزند کی یاد میں رہ کر ان کی جدائی میں اشک بہائیں اور نالہ و شیون بلند کریں اور خود کثرت سے انہیں دعاؤں کی تعلیم دیتے تھے کہ جسے وہ خاص اوقات میں پڑھیں اور آئندہ نسلوں کو سپرد کریں کہ ان دعاؤں کو وہ زمانہ غیبت میں پڑھا کریں۔
یہ دعائیں حدیثی اور فقہی مصادر میں مختلف زمانوں اور صدیوں میں ضبط تحریر میں آچکی ہیں اور حضرت کے عاشق، مشاہد ِمشرفہ اور مقامات مقدسہ میں مختلف اوقات میں حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ سے اظہار عقیدت کے وقت ان دعاؤں کے ذریعہ اپنے آقا و مولاؑ سے راز دل کہتے ہیں، غیبت کے طولانی ہونے کا شکوہ کرتے ہیں، آپؑ کے جمال پرنور کے شوق دیدار کا اظہار کرتے ہیں اور اپنے کعبہ مقصود کے فراق میں نالہ و شیون کی صدائیں بلند کرتے ہیں۔ دعائے ندبہ کے پڑھنے والے کو آخری حجت خدا کی غیبت کی وجہ سے جو انسانی معاشرے پر مصیبت وارد ہوئی ہے، معلوم ہو جائے گی اور وہ عظیم مصیبت جو امام معصوم (ع) کے وجود سے محروم ہونے کی بنا پر عالمِ بشریت پر وارد ہوئی ہے، اس سے بھی واقف ہو جائے گا۔ اس لحاظ سے اس کو اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں کہ شب و روز گریہ و زاری میں بسر کرے اور موجودہ سیاہ ترین حالات میں گرفتار ہونے پر آنسو بہائے۔
اس گریہ و زاری اور آہ و بکا کے ساتھ اپنے دل و روح کو پاک و صالح بنا کر حکومت امامؑ کے لیے زمینہ سازی کرنے کے لیے آمادہ ہوتے ہیں، جیسے کہ دعا ندبہ میں امامؑ کی حکومت اور ان کے جانثاروں کا ذکر آیا ہے: اٴَیْنَ مُعِزُّ الْاٴَوْلِیَآءِ وَ مُذِلُّ الْاٴَعْدَآءِ اٴَیْنَ جَامِعُ الْکَلِمَةِ عَلَی التَّقْوَی اٴَیْنَ بَابُ اللّٰہِ الَّذِی مِنْہُ یُوٴْتیٰ، اٴَیْنَ وَجْہُ اللّٰہِ الَّذِی إِلَیْہِ یَتَوَجَّہُ الْاٴَوْلِیَآءُ اٴَیْنَ السَّبَبُ الْمُتَّصِلُ بَیْنَ الْاٴَرْضِ وَ السَّمَآءِ اٴَیْنَ صَاحِبَ یَوْمِ الْفَتْحِ وَ نَاشِرُ رَایَةِ الْھُدیٰ "کہاں ہے دوستوں کو عزت دینے والا اور دشمنوں کو ذلیل کرنے والا، کہاں ہے تمام کلمات کو تقویٰ پر جمع کرنے والا، کہاں ہے وہ دروازہ فضل خدا، جس سے اس کی بارگاہ میں حاضر ہوا جاتا ہے۔ کہاں ہے وہ جو مظہر خدا کہ جس کی طرف حبدار متوجہ ہوں، کہاں ہے وہ سلسلہ جو زمین و آسمان کا اتصال قائم کرنے والا ہے، کہاں ہے وہ جو روز فتح کا مالک ہے اور پرچم ہدایت لہرانے والا ہے۔"
وَ اٴَعِنَّا عَلَیٰ تَاٴْدِیَةِ حُقُوقِہِ إِلَیْہِ، وَ الْاِجْتِھَادِ فِی طَاعَتِہِ، وَ اجْتِنَابِ مَعْصِیَتِہِ، وَ امْنُنْ عَلَیْنَا بِرِضَاہُ، وَ ھَبْ لَنَا رَاٴْفَتَہُ وَ رَحْمَتَہُ وَ دُعَاءَ ہُ وَ خَیْرَہُ مَا نَنَالُ بِہِ سَعَةً مِنْ رَحْمَتِکَ، وَ فَوْزاً عِنْدَکَ "اور ہماری مدد کر کہ ہم ان کے حقوق کو ادا کرسکیں اور ان کی اطاعت کی کوشش کریں اور ان کی نافرمانی سے پرہیز کریں اور ہم پر یہ احسان کر کہ ان کی رضا حاصل ہو جائے اور ہمیں ان کی مہربانی اور رحمت اور دعا و خیر عطا فرما کہ جس سے ہم تیری وسیع رحمتوں کو حاصل کرسکیں اور تیرے نزدیک کامیاب ہوسکیں۔" دعا ندبہ کے ان جملوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کا شدت مصیبت یا درد میں مبتلا ہو کر پکارنا نہ صرف تقویٰ کے ذریعے اللہ کی رضا اور بلکہ امامؑ کے سپاہیوں میں شامل ہونا ہے اور امامؑ کے مشن کی تکمیل ہے، جو کہ وعدہ حکومت الہٰی پر مبنی ہے۔
دعائے ندبہ ایک نگاہ میں:
اس دعا کا آغاز اللہ کی حمد و ثنا اور محمد (ص) اور آل محمد صلی اللہ علیہم اجمعین پر درود و سلام سے ہوتا ہے، بعدازاں انبیاء اور اولیاء کے منتخب ہونے اور برگزیدگی کا فلسفہ بیان کیا گیا ہے اور اس حقیقت پر تاکید ہوئی ہے کہ وہ سب بارگاہ الہیٰ میں قبول ہوئے ہیں۔ اس دعا میں اولو العزم پیغمبروں اور سب سے پہلے حضرت آدم (ع) کی زندگی کے اہم ترین واقعات کی طرف بھی اشارہ ہوا ہے اور تاکید ہوئی ہے کہ "اس لئے کہ حقّ قائم و دائم رہے، خداوند متعال نے ہر پیغمبر کے لئے وصی اور جانشین متعین کیا ہے، تاکہ باطل اہل حق پر غلبہ نہ پا لے اور کوئی بھی خدا کے سامنے یہ عذر و بہانہ نہ لا سکے کہ تو نے پیغمبر کیوں نہیں بھیجے اور کیوں کوئی رسول تیری طرف سے نہیں آیا اور کوئی متنبہ کرنے والا راہنما نہیں پہنچا، تاکہ ہم تیری آیات کی پیروی کرتے۔"
بعدازاں حضرت علی (ع) کی جانشینی کے موضوع کو زیر بحث لایا جاتا ہے اور آپ (ع) کے بعض فضائل بیان کرتے ہوئے دشمنان دین کی بےوفائی اور بدبختی و سنگ دلی کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے، جنہوں نے پیغمبر اکرم (ص) کے صریح حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امام علی (ع) اور آپ (ع) کے راہنماء فرزندوں کو یکے بعد دیگرے شہید کیا؛ اور اس کے بعد خاندان رسالت کے آخری معصوم امام زمانہ (عج) کے حضور استغاثہ اور اظہارِ اشتیاق کیا جاتا ہے اور پھر محمد و آل محمد (ص) پر صلوات خاصہ بھیجنے کے بعد چند التجاؤں کے ضمن میں آپ (عج) کے امام زمانہ کے ظہور میں تعجیل، حکومت حقہ کے بر سر اقتدار آنے، باطل کے مٹ جانے اور امام زمانہ (عج) کے ساتھ تعلق اور پیوند کے استحکام کے لئے دعا پر اس کا اختتام ہوتا ہے۔(صدر جوادی، دایرۃ المعارف تشیع، ج ۷ ص۵۳۵) دعا ندبہ کے اس جملہ پر اختتام کرتے ہیں کہ: صِلِ اللّٰھُمَّ بَیْنَنَا وَ بَیْنَہُ وُصْلَةً تُوٴَدِّی إِلیٰ مُرَافَقَةِ سَلَفِہِ، وَ اجْعَلْنَا مِمَّنْ یَاٴْخُذُ بِحُجْزَتِھِم، وَ یَمْکُثُ فِی ظِلِّھِمْ۔۔۔يا اَرْحَمَ الرّاحِمينَ "اے معبود ہمیں اور ان کو اکٹھے کر دے، ایسا اکٹھا جو ہم کو ان کے پہلے بزرگوں تک پہنچائے اور ہمیں ان میں قرار دے، جنھوں نے ان کا دامن پکڑا ہے، ہمیں ان کے زیر سایہ رکھ۔۔۔ اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔"