رسا نیوز ایجنسی کا رہبر معظم کی خبر رساں سائٹ سے منقول رپورٹ کے مطابق رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے نئے ہجری شمسی سال 1392 کے آغاز کی مناسبت سے اپنے پیغام میں گذشتہ سال میں ایران کی ترقی بالخصوص عالمی سامراجی طاقتوں کے ساتھ اقتصادی اور سیاسی مقابلہ میں آگے کی جانب پیشرفت کی طرف اشارہ کیا اورنئے سال کے تناظر میں سیاسی و اقتصادی میدانوں میں ایرانی قوم کے مجاہدانہ حضور،تجربہ، حرکت و پیشرفت کو امید افزا قراردیتے ہوئے فرمایا: اس نقطہ نگاہ سے نئے سال کو عظیم سیاسی اور اقتصادی رزم کا سال قراردیتا ہوں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی کے پیغام کا متن حسب ذیل ہے:
بسماللهالرّحمنالرّحیم
یا مقلّب القلوب و الأبصار، یا مدبّر اللّیل و النّهار، یا محوّل الحول و الأحوال، حوّل حالنا الی احسن الحال.
اللّهمّ صلّ علی حبیبتک سیّدة نساء العالمین فاطمة بنت محمّد صلّی الله علیه و ءاله. اللّهمّ صلّ علیها و علی ابیها و بعلها و بنیها. اللّهمّ کن لولیّک الحجّة بن الحسن صلواتک علیه و علی ءابائه فی هذه السّاعة و فی کلّ ساعة ولیّا و حافظا و قائدا و ناصرا و دلیلا و عینا حتّی تسکنه ارضک طوعا و تمتّعه فیها طویلا. اللّهمّ اعطه فی نفسه و ذرّیّته و شیعته و رعیّته و خاصّته و عامّته و عدوّه و جمیع اهل الدّنیا ما تقر به عینه و تسرّ به نفسه.
میں ملک بھر کےاپنے تمام اہل وطن بھائیوں بہنوں ، دنیا کے گوشہ گوشہ میں رہنے والے تمام ایرانیوں ، نوروز کی تقریبات منعقد کرنے والی تمام قوموں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ؛ بالخصوص ایثارگروں۔ جانبازوں اور شہداء کے اہلخانہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور تمام ان افراد کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جو ملک میں اسلامی نظام کی خدمت کرنے میں مشغول اور مصروف ہیں اور اللہ تعالی سے امید رکھتا ہوں کہ وہ اس آغاز اور اس نئے سال کو تمام ایرانیوں ، دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کے لئے خوشحالی، شادمانی، کامیابی اور نشاط کا باعث قراردے اور ہمیں اپنے وظائف اور ذمہ داریوں پر عمل کرنے میں مؤفق اور کامیاب فرمائے اور اپنے ہم وطن ایرانیوں سے سفارش کرتا ہوں کہ عید نوروز کے اواسط میں ایام فاطمیہ ہیں اور وہ ان ایام پر توجہ مبذول کریں کیونکہ ان ایام کا احترام اور تکریم ہم سب پر لازم ہے۔
تحویل کا وقت اور تحویل کی گھڑی درحقیقت ایک اختتام اور ایک آغاز کے درمیان حد فاصل ہے گذشتہ سال کا اختتام اور نئے سال کا آغاز ہورہا ہے، البتہ ہماری زیادہ تر توجہ آگے کی سمت مرکوز ہونی چاہیے۔؛ ہم نئے سال کا مشاہدہ کریں اور اس کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کریں؛ لیکن گذشتہ سال میں ہم نے جو راستہ طے کیا ہے جو پیشرفت حاصل کی ہے اس پر توجہ بھی ہمارے لئے مفید ہے تاکہ ہمیں معلوم ہو جائے کہ ہم نے کیا کام انجام دیئے ہیں، ہماری حرکت کیسی رہی ہے ہم نے کون سے نتائج حاصل کئے ہیں اور ان سے ہمیں سبق اور تجربہ حاصل کرنا چاہیے۔
تمام سالوں کی طرح گذشتہ سال بھی متنوع ، گوناگوں رنگوں اور نقشوں کا حامل رہا، حلاوت اور مٹھاس کا حامل بھی رہا ، تلخی اور کڑواہٹ کا حامل بھی رہا؛فتح و کامیابی کا حامل بھی رہا اور پسماندگی بھی رہی ، اور طول تاریخ میں انسانوں کی زندگی بھی انھیں نشیب و فراز سے دوچار رہی ہے، سختی اور فراخی کے ہمراہ رہی ہے لیکن سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو نشیب سے نکال کر اوج اور بلندیوں تک پہنچائیں۔
سن 1391 ہجر شمسی میں سامراجی طاقتوں کے ساتھ مقابلے میں جو بات واضح اور آشکار رہی وہ یہ تھی کہ دشمنوں نے اسلامی نظام اور ایرانی قوم کے خلاف کافی سخت اقدام اٹھائے البتہ بظاہر دشمن کے سخت اقدامات تھے لیکن حقیقت میں ایرانی قوم کی مختلف میدانوں میں پیشرفت ، فتح اور کامیابی تھی،ہمارے دشمنوں نے مختلف اہداف کو نشانہ بنا رکھا تھا لیکن ان کا اصلی ہدف سیاسی اور اقتصادی شعبہ تھا۔
اقتصادی شعبہ میں انھوں نے واضح اور واشگاف لفظوں میں کہا کہ وہ اقتصادی پابندیوں کے ذریعہ ایرانی قوم کو مفلوج کرنا چاہتے ہیں؛ لیکن وہ ایرانی قوم کو مفلوج نہیں کرسکے۔ اور ہم نے مختلف شعبوں میں اللہ تعالی کی مدد اور نصرت اور فضل و کرم سے خاطر خواہ ترقیات حاصل کیں ؛ جن کی تفصیل سے ایرانی قوم کو آگاہ کیا گیا ہے اور آگاہ کیا جائے گا؛ اور میں بھی انشاء اللہ ؛بشرط زندگی ، یکم فروردین ( 21 مارچ ) کے خطاب اس سلسلے میں کچھ مطالب پیش کروں گا۔ البتہ اقتصادی شعبہ میں عوام پر دباؤ پڑا ہے، کچھ مشکلات پیش آئی ہیں؛ بالخصوص اندرونی سطح پر بھی کچھ اشکالات موجود تھے،؛ داخلی سطح پر بھی غفلت اور لاپرواہی ہوئی ہے جس کی وجہ سے دشمن کے نقشوں کو عملی جامہ پہننے میں مدد ملی ہے؛ لیکن مجموعی طور پر عوام اور اسلامی نظآم کی حرکت آگے کی سمت پیشرفت پر مبنی رہی ہے؛انشاء اللہ ان تجربات کے آثار اور نتائج آئندہ نمایاں ہوں گے۔
سیاسی میدان میں دشمن کی تلاش و کوشش ایرانی قوم کو الگ تھلگ کرنے پر مرکوز رہی اور ایک لحاظ سے دشمن نے ایرانی قوم میں شک و تردید ایجاد کرنے کی بڑی کوشش کی؛ ایرانی قوم کی ہمت کو پست و کمزور کرنے کی کوشش کی؛ لیکن حقیقت میں اس کے بر عکس ہوا، اس کے خلاف ہوا، دشمن ہمیں علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر سیاسی میدان میں محدود کرنے میں ناکام ہی نہیں رہا بلکہ ہمیں اس میدان میں قابل توجہ پیشرفت بھی حاصل ہوئی جس میں ناوابستہ تحریک کے رکن ممالک کا تہران میں اجلاس بھی شامل ہے جس میں دنیا بھر کے سیاسی رہنماؤں نے بڑی تعداد میں شرکت کی ،جو دشمنوں کی توقع اور ان کے منصوبوں کے باکل خلاف تھا اس اجلاس سے ظاہر ہوگیا کہ ایرانی قوم نہ صرف دنیا میں الگ تھلگ نہیں بلکہ دنیا میں اسے عزت، احترام اور وقار کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
اندرونی مسائل میں بھی جہاں ضرورت پڑی وہاں قوم نے اپنے احساسات و جذبات کا اظہار کیا اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کیا سن 91 میں 22 بہمن کی ریلیوں میں عوام نے شجاعت اور دلاوری کے انمٹ نقوش قائم کئے؛ گذشتہ برسوں کی نسبت کثیر تعداد میں اور زیادہ جوش و ولولہ کے ساتھ لوگ ریلیوں میں حاضر ہوئے ؛ ایک دوسرا نمونہ خراسان شمالی کے عوام کا پابندیوں کے اوج میں شاندار حضور تھا جو ایرانی قوم کے جذبہ ، ولولہ اور نشاط کا مظہر تھاگذشتہ سال میں اسلامی نظام کے سلسلے میں حکام نے بحمداللہ عظیم اور نمایاں کارنامے انجام دیئے ہیں، علمی و سائنسی شعبہ میں پیشرفت، بنیادی اور تعمیری کام، عوام اور حکام کی قابل توجہ جد و جہد جس سے انشاء اللہ آگے کی سمت حرکت کی راہ ہموار ہوئی ہے، سیاسی ، اقتصادی اور دیگر تمام حیاتی شعبوں میں بھی پیشرفت کی راہ ہموار ہوئی ہے۔
اللہ تعالی کی مدد و نصرت اور عوام کی ہمت کی بدولت سال 92 ہجری شمسی میں بھی منصوبے ہمارے لئےامید افزا اور ترسیم شدہ ہیں نیا سال ایرانی عوام کی جد وجہد، تحرک، پیشرفت اور تجربہ کا سال رہےگا۔؛ اس کا مطلب یہ نہیں کہ دشمن کی عداوت اور دشمنی میں کوئی کمی آجائے گی۔بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایرانی قوم کی آمادگی زیادہ سے زیادہ ، مؤثر ، تعمیری اور انشاء اللہ ان کے اپنے ہاتھ میں رہے گی۔
البتہ سال 92 ہجری شمسی میں ہمیں سیاست اور اقتصاد کے دو اہم شعبوں میں جن چیزون کا سامنا ہے ان میں ہمیں قومی پیدوار کے شعبہ پر توجہ مبذول کرنی چاہیے؛جیسا کہ گذشتہ سال کا نعرہ بھی ہی تھا؛ البتہ اس سلسلے میں بعض کام انجام پذیر ہوئے ہیں لیکن قومی پیداوار کی ترویج اور ایرانی سرمایہ اور کام کی حمایت ایک دراز مدت مسئلہ ہے؛ یہ کام ایک سال کا نہیں ہے خوشبختی سے گذشتہ سال کے دوسرےچھ ماہ میں قومی پیداوار کا پروگرام منظور اور ابلاغ ہوا یعنی اس کام کی ریل بچھا دی گئی ہے جس کی بنیاد پر حکومت اور پارلیمنٹ منصوبہ بنا سکتے ہیں اور اچھی حرکت کا آغاز کرسکتے ہیں اور انشاء اللہ بلند ہمت اور تلاش و کوشش سے اگے بڑھ سکتے ہیں۔
سیاسی شعبہ میں بھی سن 1392 ہجری شمسی میں صدارتی انتخابات ہیں،؛ جو در حقیقت سیاسی اور انتظامی امور میں فیصلہ کن ہیں اور ایک لحاظ سے ملک کے آئندہ چار سالہ دور کے لئے سرنوشت ساز اور فیصلہ کن ہیں۔ انشاء اللہ عوام انتخابات میں بھر پور شرکت کرکے اپنا تابناک اور درخشاں مستقبل رقم کریں گے البتہ سیاست اور اقتصاد کے شعبوں میں عوام کا جہادی حضور بہت ضروری ہے شوق و نشاط اور شجاعت کے ساتھ میدان میں وارد ہونا چاہیے بلند ہمت اور امید افزا نگاہ کے ساتھ وارد ہونا چاہیے؛ با نشاط اور پرامید دل کے ساتھ وارد ہونا چاہیے؛ اور دلیری و شجاعت کے ساتھ اپنے اہداف تک پہنچنا چاہیے۔
اس نقطہ نظر سےسال 92 ہجری شمسی کو " سیاسی اور اقتصادی رزم " کے نام سے موسوم کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ہمدرد و دلسوز حکام اور عوام باہمی تعاون کے ساتھ اقتصادی اور سیاسی رزم کا شاندار نمونہ پیش کریں گے۔
اللہ تعالی اور حضرت بقیۃ اللہ (ارواحنا فداہ) کی توجہات کا طالب اور حضرت امام (رہ) اور شہداء کی ارواح پر درود و سلام نثار کرتا ہوں۔
و السّلام علیکم و رحمةالله و برکاته