رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حضرت آیت الله جوادی آملی نے ایران کے مقدس شہر قم کے مسجد اعظم میں علماء و طلاب کے شرکت کے ساتہ منعقدہ تفسیر کے درس میں ایک واقعہ بیان کیا جس میں ایک جوس بیچنے والا شخص حلال و حرام کا خیال نہیں کرتا تھا جس کی وجہ سے اس نے عذاب کا مشاہدہ کیا ، یہ واقعہ کار و بار کرنے والے لوگوں کے لئے ایک عبرت کا سبق ہے ۔
حضرت آیت الله جوادی آملی نے کہا : میں ایک روز عمرہ کے دنوں میں نماز صبح کے بعد ضریح کے سامنے بیٹھا تھا کہ دیکھا ایک متوسط عمر کا شخص جو 40 سال کے قریب کا ہوگا وہ میرے پاس آیا اور کہا جناب عالی آیت «کلاّ لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْیَقِینِ٭ لَتَرَوُنَّ الْجَحِیمَ» کا کیا مطلب ہے ؟ میں نے بھی اس کو مختصر توضیح دی تو اس نے کہا کہ میرے ساتہ یہ واقعہ پیش آیا ہے ، اس نے بیان کیا کہ ایران میں میرا کام جوس بیچنا ہے ، لوگ آتے ہیں اور ہمارے اسٹال پر سے جوس خریدتے اور پیتے ہیں ، اس وقت یہ رواج تھا کہ برف سپلائر صبح میں برف کے سلہ کو جوس کی دکان کے سامنے رکھ کر چلا جاتا تھا ، میں ایک روز صبح کی نماز ادا کر کے جب دکان آیا تو دیکھا کہ برف کا سلہ رکھا ہوا ہے اور اس میں سے آگ کا شعلہ روشن ہے مجھے احساس ہوا کہ میرے اس کام میں کچہ کھوٹ ہے ۔
میں اپنے شہر کے ایک عالم دین کی خدمت میں گیا اور ان سے اس ماجرا کا اسباب دریافت کیا تو انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ تم کس طرح جوس فروخت کرتے ہو ؟ میں نے جواب دیا کہ میں ان لوگوں سے ایک گلاس جوس مثلا 5 روپیہ میں بیچتا ہوں ، اور سیب کا جوس جو ان لوگوں کو دیتا ہوں اس میں تھوڑا سا برف بھی ملا دیتا ہوں تا کہ ٹھنڈا ہو جائے ، تو اس عالم دین نے جواب دیا کہ یہی برف مال حرام کا سبب ہے کیونکہ تم جو جوس بیچ رہے ہو اس گیلاس کا کچہ حصہ جوس کے بجائے اس برف سے بھر جاتا ہے ، اس کے بعد سے میں نے توبہ کیا ہمارے لئے راستہ روشن ہو گیا ، میں نے اپنے جوس کے دوکان میں دو گیلاس رکھنا شروع کیا ایک متوسط اور ایک بڑا ، خریدار کو متوسط گیلاس میں جوس دیتا ہوں اور اسے بتا دیتا ہوں کہ جوس متوسط گلاس کے مطابق ہے اور برف بڑے گلاس میں ڈال کر اس میں مخلوط کرتا ہوں تا کہ خریدار کے لئے بھی روشن رہے کہ اس میں کتنا جوس ہے اور کتنا برف کا حصہ ۔