رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تہران میں بوسنیا کی صدارتی کونسل کے سربراہ باقرعزت بیگوویچ اور ان کے ہمراہ وفد کے ساتھ ایک ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ دہشت گردی کے خلاف مغربی حکومتوں کا قائم کردہ فوجی اتحاد، دہشت گردی کے خلاف حقیقی اتحاد نہیں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہوسکتا ہے کہ یہ اتحاد بعض اوقات دہشت گردوں کے خلاف حملے بھی کرے لیکن یہ اتحاد عراق اور شام میں حقیقی میں معنوں میں دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا ہی نہیں چاہتا اور ان کی گھناؤنی اور شرپسندانہ پالیسیوں کی وجہ سے انسانیت کی مشکلات میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے دہشت گردی کے عوامل اور اسباب کی شناخت کو اس کے علاج کا راستہ قرار دیا اورفرمایا کہ دہشت گردی کی ایک وجہ یہ ہے کہ ، یورپ کے بعض دولت مند اور طاقتورملکوں میں مسلم نوجوانوں کی تحقیر کے سبب ، داعش جیسے منحرف گروہوں میں ان کی شمولیت کا راستہ ہموار ہوتا ہے اور جب یہ نوجوان یورپ واپس آتے ہیں تو دھماکے اور قتل عام کا ارتکاب کرتے ہیں۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ، بعض مغربی حکومتوں کی جنگ پسندانہ اور دہشتگردی پھیلانے والی پالیسیوں کے مقابلے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ دنیا کے خود مختار ملکوں کو چاہیے کہ وہ باہمی تعلقات کو مضبوط بنائیں اور سامراجی طاقتوں کی پالیسیوں سے متاثر ہوئے بغیر، اختلافات اور جنگ کی آگ کو خاموش کردیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ، تکفیریت اور دہشت گردی کی موجوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے، جو اب یورپ میں بھی سرایت کرگئی ہیں، فرمایا کہ بظاہر دہشت گردی کی ان موجوں نے عرب خطے میں جنم لیا ہے لیکن حقیقت میں امریکہ اور بعض یورپی حکومتیں اس کی اصل ذمہ دار ہیں۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے جنگ بوسنیا کے تلخ واقعات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایاکہ امن و سلامتی کا قیام کسی بھی قوم کی ترقی و پیشرفت کا بنیادی ستون ہے۔
اس موقع پر بوسنیا کی صدارتی کونسل کے سربراہ باقرعزت بیگوویچ نے اپنے دورہ تہران پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ بوسنیا اور ایران کے درمیان پائے جانے والے مضبوط رشتے موثر اقتصادی تعاون میں تبدیل ہوجائیں گے جس سے دونوں ملکوں کے عوام کو فائدہ پہنچے گا۔/۹۸۸/ن۹۴۰