تحریر: ایس ایم شاہ
ایک دبلا پتلا سا لڑکا جو بہت ہی ذہین و فطین تھا، جس کا اٹھنا بیٹھنا ہمیشہ علم و فضل سے سرشار افراد میں ہوتا تھا، گھرانہ بھی ایسا جہاں صوم و صلواۃ اور ہمیشہ محو عبادت رہنا تو روز کا معمول تھا، یہ حقیقت تو اظہر من الشمس ہے کہ جب بچپن ہی میں ایسے قبلہ نما اور نفوس قدسیہ کی ایسی صحبت میں اٹھنا بیٹھنا نصیب ہو، جن کی علمی قندیلوں سے قندیلیں ہر وقت روشن و منور رہتی ہوں اور ان کے چشمہ صافی سے آب زلال پی کر لوگ جوق در جوق سیراب ہوتے ہوں تو اس ماحول میں آنکھیں کھولنے والا بچہ کتنا خوش نصیب ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ "ابن العالم نصف العالم" زبان زد خاص و عام ہے۔ جب چاند سا یہ بچہ بسم اللہ کی عمر کو پہنچا، تب گھر ہی مکتب تھا، اپنے تمام ہم سن افراد میں ان کی ممتاز حیثیت کسی سے ڈھکی چھپی نہ تھی، پیشین گوئیاں کرنے والے سمجھ گئے تھے کہ یہ بچہ مستقبل قریب میں جا کر اپنی شخصیت کا لوہا منوانے والا ہے، جس کے دوست و دشمن سبھی مداح ہوں گے۔ سکول کے دورانیئے میں بھی ہمیشہ پہلی پوزیشن ان کی تقدیر کا حصہ تھا، باپ بھی اندر سے ان کے مستقبل کے حوالے سے ہمیشہ نہال رہتے تھے، جس باپ نے پورے معاشرے کے سدھارنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہو، ان کے لئے اپنے لخت جگر کی بہترین تربیت کرنا کوئی نئی بات نہ تھی۔
میٹرک اعلٰی نمبروں سے پاس کرنے کے بعد علوم آل محمد سے کماحقہ آراستہ پیراستہ ہونے کے لئے لاہور کا رخ کیا۔ جامعۃ المنتظر جیسی علمی درس گاہ میں علامہ صفدر حسین نجفی جیسی عظیم شخصیت سے علمی فیوض پانے کا شرف پایا۔ اس مدت میں بھی آپ ایک نمایاں حیثیت کے حامل رہے، آپ کی مستقل مزاجی، حق گوئی اور دلیری اس وقت بھی سب پر عیاں تھی، یہی وجہ ہے کہ سید صفدر حسین نجفی نے آپ کے حوالے سے کہا کہ میں اپنی کارکردگی پر مطمئن ہوں، کیونکہ میں ضیاء الدین جیسوں کی تربیت کر رہا ہوں۔ دس سال نمایاں حیثیت کے ساتھ وہاں گزارے، پھر اعلٰی تعلیم کے حصول کے لئے عُش آل محمد سرزمین قم المقدسہ کے راہی ہوئے، یہاں بڑے بڑے مراجع عظام، عارف باللہ اور ایمان و ایقان کی منزل پر فائز علماء کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ آپ نے اس گولڈن موقع سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے جہاں علوم آل محمد کے حصول میں دن رات ایک کر دی، وہاں صفائے باطن اور تزکیہ نفس کی طرف بھی خصوصی توجہ دی، درنتیجہ مدت قلیل میں ہی آپ نے بیش بہا علوم حاصل کر لئے۔ صفائے باطن کے حامل ٹھہرنے، علوم قدیمہ اور جدیدہ پر مسلط ہونے، فارسی، اردو اور انگلش زبانوں پر آپ کی گرفت مضبوط ہونے اور اپنے اساتذہ کا معتمد ٹھہرنے پر تبلیغ کی ذمہ داری سونپ کر آپ کو لندن بھیجا گیا۔
سرزمین فرنگ پہ آپ محو تبلیغ تھے، اتنے میں سرزمین بے آئین شمالی علاقہ جات میں قتل و غارت کا بازار گرم ہوا۔ اس وقت کے ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کے زیر سایہ 1988ء میں وہاں طالبان نے چڑھائی کر دی، عصمتیں لوٹی گئیں، خون کی ندیاں بہائی گئیں، شیعیان علی کا خون حلال تصور کیا جانے لگا، آپ کو جلال آیا، اپنی شرعی ذمہ داری کا صمیم قلب سے احساس کیا، جلوۃ فرنگ کو خیرباد کہہ کر گلگت کا رخ کیا، ہر طرف ابتری دکھائی دے رہی تھی، جنازوں پر جنازے آرہے تھے، تمام لوگوں میں مایوسی کا دور دورہ تھا، لوگ شدت سے ایک مسیحا کے منتظر تھے، جو انہیں اس کرب سے نجات دلا سکے۔ آپ نے تمام حالات پر طائرانہ نظر دوڑائی، تمام مکاتب فکر کے علماء سے ملے اور اس مشکل کو حل کرنے کے حوالے سے اپنی حجت سب پر تمام کر دی، لیکن بدقسمتی سے طاقت کا توازن برقرار نہ ہونے کی بنا پر آپ کی باتوں کی کوئی شنوائی نہ ہوسکی، تب آپ نے اہل تشیع کی ناامیدیوں کو امید میں تبدیل کرنے کے لئے جو تاریخ ساز کارنامے انجام دیئے، وہ رہتی دنیا تک گلگت بلتستان کی تاریخ کے اوراق پر سنہرے حروف میں محفوظ رہیں گے۔
آپ کی بہترین حکمت عملی نے دشمن کو صلح پر مجبور کر دیا، اب ماحول بالکل بدل گیا، کچھ اپنوں کی ناقدری نے آپ کو دوبارہ ایران واپس لوٹنے پر مجبور کر دیا، لیکن یہاں کے مخلصین نے جونہی آپ کے فقدان کا احساس کیا، تب فوراً آپ کو دوبارہ واپس بلا لیا گیا، اب سید ضیاء الدین نے اپنی ضیاء پاشیوں کا سلسلہ شروع کیا، لوگ جوق در جوق ان کے گرد حلقہ بنانے لگے، مایوسی کے سرطان میں مبتلا معاشرے میں اب امید کی کرنیں ضوفشانی کرنے لگیں، امن و امان کا دور دورہ دکھائی دینے لگا، نئی نسل کے لئے کیرئیر گائیڈینس فراہم ہونے لگے، سکولوں کا جال بچھایا گیا، غرض معاشرے کا ہر فرد ترقی کی راہ پر گامزن ہوا، مسجد و محراب کی طرف مڑ کے نہ دیکھنے والے پانچ وقت کے نمازی بن گئے، اتحاد و اتفاق کی فضا حاکم ہوتی گئی۔ مختصر وقت میں آپ نے ہر میدان میں ترقی کے وہ جوہر دکھائے، جس سے دوست و دشمن سب آپ کے مداح بن گئے۔ آپ نے باقاعدہ انہیں ایک نئی جہت دکھائی۔
عرصہ دراز سے شدت پسند مذہبی حلقوں نے نصاب سازی کے اداروں تک نفوذ کے ذریعے تعلیمی نصاب میں بچوں کو دین، اسلامی معارف، معاشرتی آداب اور جدید علوم کو جگہ دینے کی بجائے ان میں مسلکی رنگ بھر دیا تھا، آپ نے اسے دشمنوں کی بہت ہی خطرناک سازش قرار دیا، کیونکہ نئی نسل ہر قوم کی امید اور مستقبل ہوا کرتی ہے، جب سکول اور کالج میں ان کا ذہن خراب ہوتا رہے تو صرف محراب و ممبر سے کب ان کی اصلاح ممکن ہوگی۔ آپ نے مہذبانہ انداز سے حکومتی بااثر شخصیات تک اپنے تحفظات پہنچا دیئے، لیکن ان کی کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ آپ نے تین آپشن سامنے رکھے، یا تو تعلیمی نصاب میں تمام مکاتب فکر کے مشترکات کو باقی رکھا جائے یا ہر مکتب فکر کو ان کا اپنا مکتب الگ پڑھایا جائے۔ اگر یہ بھی ممکن نہ ہوا تو جہاں کسی خاص مکتب فکر کی باتیں آئیں، وہاں دوسرے مکاتب کے نظریئے اور دلیل کو بھی بیان کیا جائے، تاکہ نصاب تعلیم میں تمام اسلامی مکاتب فکر کی ترجمانی ہو اور یہ صرف ایک فرقے کی میراث بن کر نہ رہ جائے۔ اپنے مطالبات کی منظوری کے لئے پرامن احتجاجات کئے گئے، آپ کو اس جرم میں جیل بھی بھیجا گیا، لیکن آپ کے عزم میں تزلزل آتا دکھائی نہ دیا، پھر آپ نے کفن پوش مظاہرے کی کال دی، اس میں بھی آپ صف اول میں رہے۔
حکومتی کارندے صرف لیت و لعل سے کام لیتے رہے، آپ ان کے سامنے اپنے مدعا کے لئے منطقی دلائل پیش کرتے رہے، جن کے جواب دینے سے وہ قاصر رہے۔ آپ کے خلوص کے باعث عوام میں اس مہم کو کافی پذیرائی ملی۔ اب دشمن جان گئے کہ ہم ان کے منطقی دلائل کی نفی میں کوئی دلیل نہیں رکھتے، کیونکہ ان کی باتیں سوفیصد حقیقت پر مبنی ہیں۔ لہذا انھوں نے آپ کو میدان سے ہٹانے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن آپ ہر مرتبہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوئے۔ آخر کار جب دشمن آپ کو اپنے ہدف سے ہٹانے سے عاجز آگئے تو آپ کے وجود کو ہی حذف کرنے کی سازش رچائی گئی۔ جنوری 2005ء کا مہینہ تھا، آپ حسب دستور ظہرین کی نماز پڑھانے مسجد کی طرف جا رہے تھے، گھات میں بیٹھے دہشتگردوں نے آپ کو نشانہ بنایا، آپ کی سکیورٹی پر مامور ذاتی گارڈز نے دشمن کا مقابلہ کیا۔ آخرکار سکیورٹی کے دو اراکین موقع پر ہی جام شہادت نوش کرگئے۔ آپ اور ایک سکیورٹی گارڈ کو شدید زخمی حالت میں راولپنڈی سی ایم ایچ ہسپتال لایا گیا، لیکن آپ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے۔ جب آپ کی شہادت کی خبر ملی تو گلگت بلتستان میں اس قدر آہ و فغاں کا عالم تھا کہ گویا ہر کوئی اپنے حقیقی باپ سے جدا ہوگیا ہو۔ آپ کو ہیلی کے ذریعے گلگت لایا گیا، جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے آپ کے جنازے میں شرکت کی۔
آپ کے فراق سے لوگوں پر جنونی کیفیت طاری ہوگئی، ظالم حکمرانوں کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا، اس جرم میں بہت سارے جوان پکڑے گئے، ان میں سے ایک شہید نوید حسین بھی تھے، ان پر جعلی دفعات لگائی گئیں، انہیں زندان میں بیڑیاں پہنائی گئیں، بہت سی سختیاں کی گئیں، لیکن ان کا جرم صرف مظلوم کی حمایت میں صدائے احتجاج بلند کرنا تھا، وہ زندان میں سڑ رہے تھے، در ایں اثناء گلگت میں ایک جج کو قتل کیا گیا، بے عدل عدلیہ نے اس کا مجرم بھی شہید نوید کو ٹھہرایا۔ کیا دنیا میں کہیں ایسا ہوا ہے کہ کوئی ملزم جیل سے نکل کر جائے اور جج کو قتل کرکے پھر جیل میں پناہ لے؟! یہ منطق ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ حال ہی میں سید موصوف کی برسی کے ایام میں ہی نوید حسین کو بھی اڈیالہ جیل میں پھانسی لگا کر شہید کیا گیا، اس نے اپنے آخری وقت میں بھی حقیقت بیانی سے گریز نہیں کیا، بلکہ برملا کہا کہ جس جرم میں مجھے پھانسی دی جا رہی ہے، اس کا مجھ سے دور کا بھی واسطہ نہیں، جس صدر اور وزیراعظم کے انتخاب میں میری رائے نہیں چلتی، وہ میری پھانسی کا حکم کیسے دے رہا ہے۔ اس نے آخری لمحات میں تختہ دار پر چڑھتے وقت شہید کو اپنا آخری سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالٰی شہید مظلوم سید ضیاء الدین کے درجات بلند فرمائے، جس نے ہمیں باطل قوانین کے سامنے سر اٹھا کر جینے کا ہنر سکھایا۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ آج شہید سید ضیاء الدین ہم میں نہیں، لیکن پھر بھی شہید زندہ جاوید ہے، لوگوں کے دلوں پہ حکمرانی کر رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ /۹۸۸/ ن۹۴۰