19 February 2017 - 22:29
News ID: 426413
فونت
محمد جواد ظریف:
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے کہا : دیگر ملکوں میں بدامنی پھیلا کر دنیا میں امن قائم نہیں کیا جاسکتا۔
محمد جواد ظریف

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے جرمن شہر میونخ میں منعقدہ ۵۳ ویں بین الاقوامی سیکورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا : آج کی دنیا میں قیام امن و سلامتی کا مقصد دوسروں کے چین اور سکون کو برباد کرنا نہیں ہے۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا : عراق، شام، بحرین ، یمن اور علاقائی تنازعات کے مسائل کا حل فوجی ذریعے سے ممکن نہیں ہے بلکہ سیاسی عمل سے ممکن ہے ایران ہر خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہے۔

جواد ظریف نے بیان کیا : ایسے بحرانوں میں فوجی مداخلت مؤثر ثابت نہیں ہوسکتی بلکہ فوجی مداخلت سے مسائل مزید پیچیدہ ہوجاتے ہیں ہمیں مشکلات کو پہچان کر ان کا راہ حل تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے بیان کیا : عراق میں صدام حکومت کا زوال اور ایک متوازن حکومت کا برسراقتدار آنا بعض ملکوں کی تشویش کا باعث بنا ہے۔

انہوں نے کہا : موجودہ صورت حال میں علاقے میں استحکام کی اشد ضرورت ہے اور علاقے کے تمام ممالک کو چاہئے کہ امن و استحکام کے عمل میں شریک ہوں۔ خلیج فارس خطے میں موجود ممالک علاقائی مسائل کو مشترکہ تعاون کے ذریعے حل کرنے کے مقصد سے علاقائی مذاکرات اسمبلی کے قیام عمل میں لائیں۔

محمد جواد ظریف نے تاکید کی : خطے میں غیر علاقائی طاقتوں کی موجودگی کی بنا پر عدم استحکام پیدا ہوا ہے اور غیر علاقائی طاقتیں ہی خطے میں جاری دہشت گردی کی پشتپناہی کررہی ہیں۔ جس کے سلسلہ میں امریکی حکام نے داعش دہشت گرد تنظیم کی تشکیل کا خودمتعدد باراعتراف کرچکے ہیں ۔

ایران کے وزیر خارجہ نے کہا : غیر ریاستی عناصر آج کی دنیا میں اپنی کاروائیوں میں اضافہ کر رہے ہیں اور یہ بات سوچنے کی ہے کہ کوئی ایک طاقت یا ایک ملک ان عناصر سے اکیلا لڑ نہیں سکتا اور کوئی ایک طاقت یا ایک سے زائد طاقتیں اس عالمی اور علاقائی مسئلے کا دوسروں کو ذمہ دار ٹھرا کے یا ان کو اس مسئلے کے حل سے باہر نکال کے اس صورتحال پر قابو نہیں پاسکتیں۔

انہوں نے یاد دہانی کراتے ہوئے بیان کیا : گذشتہ دو عشروں کے دوران ان ملکوں نے علاقے میں اپنی تشویش کے اظہار کی بہت کوشش کی تاکہ ہتھیاروں کی طرف قدم بڑھا سکیں۔ جبکہ ان ہی ممالک نے صدام کو ہتھیار فراہم کر کے اس کی بھرپور مدد کی ہے۔ یہ پڑوسی ممالک ہتھیاروں کی فراہمی میں پیش پیش رہے یہاں تک کہ علاقے ایک ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہو گئے۔ اس طریقے کو ترک کر کے نئی روش کی طرف آگے بڑھنا ہوگا۔

ایران کے وزیر خارجہ نے ایران و عراق جنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : اس جنگ میں عالمی برادری نے اپنی ذمہ داریوں پر عمل نہیں کیا اور جارح کی سرزنش کرنے کے بجائے اس کی حمایت جاری رکھی جس کے بعد صدام نے کویت پر حملہ کر دیا اور اس کے بعد صدام کے حامی اس کے خلاف ہوگئے۔

محمد جواد ظریف نے وضاحت کی : ایران خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک  کے ساتھ ہر قسم کا تعاون کرنے کے لئے تیار ہے ایران خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک کو اپنا برادر سمجھتا ہے اور ہم ایک دوسرے کے ساتھ ملکر خطے کی مشکلات اور مسائل کو مذاکرات کے ذریعہ حل کرسکتے ہیں۔

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا : مغرب اور مسلم ممالک اس صورتحال کے لئے ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھرا کے کچھ حاصل نہیں کرسکتے۔ مغرب کے لئے مسلمانوں کو ہر چیز کا ذمہ دار ٹھرانا بہت آسان ہے۔ آج کل جو ہمیں انتہاپسندی سے نظر آرہی اس کی اصل وجہ خارجی مداخلت اور قبضہ ہے جو فلسطین کے مسئلے سے شروع ہوا اور دنیا کے دوسرے حصوں تک پھیل چکا ہے۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا :  انتہاپسندی اور تکفیری سوچ جو نفرت، تقسیم اور تشدد پر مبنی ہیں جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اسی وجہ سے آج ہم داعش اور النصرہ فرنٹ جیسے دہشتگرد گروہوں کے انسانیت سوز اقدامات کا سامنا کر رہے ہیں۔ داعش اور النصرہ دہشت گردوں کو بعض ممالک خطرناک ہتھیار فراہم کررہے ہیں اور بعض ممالک دہشت گردی کے خاتمہ میں سنجیدہ نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کا ناسور باقی ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ نے شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے کہا : ایران پہلا ملک ہے جس نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی مذمت کی ہے اور کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال ناقابل معاف جرم اور جنگی قوانین کی خلاف ورزی ہے کہ جس کی کسی بھی بہانے سے کوئی توجیہ قبول نہیں کی جاسکتی۔

محمد جواد ظریف نے کہا : ایسی حالت کہ میں شام سے کیمیائی ہتھیاروں کے خاتمے میں ایران نے اہم کردار ادا کیا ہے یہ بات قابل افسوس ہے کہ داعش اور جبہت النصرہ جیسے دہشت گرد گروہوں کے پاس اس قسم کے ہتھیار موجود ہیں۔

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا : ایران کو بشار اسد کی حمایت  پر فخر حاصل ہے اگر ایران کی حمایت نہ ہوتی تو آچ دمشق اور بغداد پر داعش دہشت گردوں کا قبضہ ہوتا ایران نے عراق اور شام کی مدد کرکے علاقائی عوام کو خونخوار دہشت گرد گروہ سے نجات دلائی ہے۔

انہوں نے تاکید کی : خلیج فارس کے ممالک تقسیم کی پالیسی چھوڑ کر بات چیت کا پُرامن راستہ اختیار کریں۔ ایرانی صدر نے اس حوالے سے عمان اور کویت کے دورے کرکے پہیل کیا۔

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا : ایرانی جوہری مسئلے کا حل ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ سفارتکاری کے ذریعے تمام مسائل کو با آسانی حل کیا جاسکتا ہے۔

محمد جواد ظریف نے کہا : سب کو چاہئے کہ مذاکرات کی اہمیت کو سمجھیں اور مسائل کو درک کرتے ہوئے راہ حل پیش کریں اور ہم، اس سلسلے میں قدم اٹھا سکتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ عالمی رہنما بھی اس بات کی توانائی رکھتے ہیں۔/۹۸۹/ف۹۳۰/ک۹۹۸/

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬