تحریر: سید اظہار مہدی بخاری
مختلف علوم، ان کی جہات، ان میں ہونے والی تازہ تحقیقات اور پیش رفت سے آگاہی ہمارے اندر قلبی و عقیدتی لگاؤ کی حدود تک موجود ہے۔ بالخصوص شرعی و فقہی موضوعات میں جدید آراء اور سائنسی و فنی موضوعات پر تازہ تحقیقات ہمارا ہدفِ نظر ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مذہب اور سائنس کے درمیان اتفاق و اختلاف کے حوالے سے سامنے آنے والے دلائل بھی ہماری دلچسپی کا موضوع ہے۔ حسن اتفاق ہے کہ گذشتہ دنوں کراچی یونیورسٹی (این ای ڈی،یو ای ٹی) بلوچستان یونیورسٹی اور پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے اشتراک سے اسلام آباد میں ایک تین روزہ تربیتی ورکشاپ میں مذکورہ تینوں اداروں کے دعوت پر شرکت کا موقع نصیب ہوا۔ جس سے پاکستان کے ممتاز سائنسدان اور عالمی شہرت یافتہ ماہر ارضیات جناب پروفیسر سروش حشمت لودھی، پاکستان کے معروف ماہر ارضیات اور چئیرمین ارتھ کوئیک انجئینرنگ ڈیپارٹمنٹ این ای ڈی و یو ای ٹی جناب پروفیسر محمد رفیع مسعود صاحب،عالمی شہرت یافتہ ماہر ارضیات و سائنسدان اور بلوچستان یونیورسٹی میں جیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ، کئی ریسرچ پیپرز و کتب کے مصنف ڈاکٹر دین محمد کاکڑ، نیشنل انسٹیٹوٹ آف ڈیزاسٹر منیجمنٹ کے سربراہ اور ماہر ارضیات جناب بریگیڈئیر (ر) ساجد نعیم، نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ کی ماہر اور محقق ڈاکٹر غزالہ نعیم، پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے سربراہ جناب اظہر حسین سید، ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید رشاد بخاری نے قدرتی آفات بالخصوص زلزلہ اور سونامی کے حوالے سے اپنے متعلقہ زاویوں کے مدنظر انتہائی علمی و معلوماتی لیکچرز اور بریفنگز دیں۔ ہمیں بھی مختلف مراحل میں اظہار خیال اور تبادلہ خیال کا موقع ملا۔
اپنے موضوع اور شرکاء کے لحاظ سے یہ ورکشاپ نہایت اہم تھی، لطف کی بات یہ ہے کہ مشکل ترین سائنسی تحقیقات کے بیانات سنانے کے لئے جس طبقے سے سامعین اور شرکاء کا انتخاب کیا گیا، وہ دینی علماء اور دینی اسکالرز تھے، یہ ایک منفرد اور اچھوتا تخیل تھا، جس کا کریڈٹ یقینی طور پر ادارہ امن و تعلیم کو جاتا ہے۔ ورنہ کہاں سائنس اور کہاں آئمہ جمعہ و جماعت۔؟ لیکن شرکت اور سماعت کے بعد ہمارے احساس کی تجدید ہوئی کہ قدرتی آفات کا موضوع خالصتاً انسانی ہے اور انسانیت سے وابستہ ہے، اسے مذہب، علاقے، خطے یا گروہی نظر سے نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ قدرتی آفات پر صبر کا عقیدہ اپنے مقام پر بجا ہے۔ قدرتی آفات پر انسانی بے بسی بھی ایک حد تک درست ہے۔ قدرتی آفات پر وسائل کے محدود ہونے کی باتیں بھی کسی حد تک قابل تسلیم ہیں، حتٰی کہ قدرتی آفات کے نتیجے میں زمین اور سمندر سے اگل کر باہر آنے والے ذخائر کا حصول ایک نعمت مان لینا بھی حقیقت ہے، لیکن کیا ذخائر کا حصول اور انسانی بے بسی کا مطلب یہ ہے کہ قدرتی آفات کے مقابلے یا ان آفات سے ہونے والے نقصانات کو محدود اور کم کرنے کے لئے اقدامات سے گریز کیا جائے؟
ہمارے ہاں یہ روایت عام ہے کہ زلزلے اور سونامی کو روکنا انسان کے بس میں نہیں ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ قدرتی آفات انسانوں کے برے اعمال کیوجہ سے رونما ہوتی ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ آئی تقدیر کو کون روک سکتا ہے؟ حتٰی کہ قسم قسم کی باتیں ہمارے ماضی اور حال میں موجود ہیں، مگر جب سوال کیا جاتا ہے کہ آیا کوئی حل بھی ہے، جس پر عمل کرکے انسانوں کو موت سے محفوظ رکھا جاسکتا ہو تو جواب ندارد۔ حالانکہ قرآن کریم کی متعدد آیات انسانوں کو ہلاکت، خودکشی اور اپنی جان کو ضرر پہنچانے سے منع کرتی ہیں، جس کی مثالیں سورہ البقرہ کی آیت ۱۹۵، سورہ الروم کی آیت ۴۱، سورہ یوسف کی آیات ۴۶ سے ۴۹ کے علاوہ کئی ایک ہیں۔ اس کے علاوہ مکی و مدنی ادوار اور اس کے بعد کے تاریخی واقعات بھی ہماری راہنمائی کرتے ہیں کہ ہمیں تعبیر و تشریح میں الجھنے کی بجائے انسانی جان کو ہر ممکنہ تحفظ دینے کے لئے اللہ کے عطا کردہ عقل و فہم سے استفادہ کرتے ہوئے اللہ ہی کی خلق کردہ نعمات و اسباب کو استعمال کرتے ہوئے اقدامات کرنا چاہیے۔
سائنس اور مذہب کے درمیان شروع سے ہی مصنوعی بُعد پیدا کیا گیا، حالانکہ اسلام سے قبل بالعموم اور اسلام کے بعد بالخصوص تقریباً سارے سائنسی علوم کی ابتداء اور بنیادی ماخذ دینی اور مذہبی رہنماؤں نے فراہم کئے۔ بارہ صدیاں پہلے سائنسی علوم کی باقاعدہ تدریس بھی کسی عام کالج یونیورسٹی کی بجائے ایک دینی مدرسے سے شروع کی گئی۔ ہمارے حاضر دور میں موجود مصر کی جامعۃ الازہر کو ایسے سینکڑوں اعزازات حاصل ہیں، جن میں جامعہ نے سائنسی اور فنی علوم کی تدریس اور سلیبس کی بنیاد رکھی، جسے اپنا کر صرف عالم اسلام نہیں بلکہ اہل دنیا بالخصوص اہل یورپ نے علمی میدان میں ترقی کی ہے۔ قرآن کریم کی مختلف آیات میں ان تمام باتوں اور امور کا واضح اور اصولی انداز میں ذکر کر دیا گیا ہے، جنہیں سائنس کا ماخذ، بنیاد، فخر اور امتیاز کی علامت کہا جاتا ہے۔
ان امور میں کائنات کی ابتداء، کائنات کی تخلیق کے مراحل، زمین کو سکونت کے قابل بنانے کے چار مراحل، گیس سے آسمان کی تخلیق، کشش ثقل، نظام شمسی کی ترتیب و تشکیل، دن اور رات کا گردشی نظام، سورج اور چاند کا زمین اور دیگر سیاروں کے ساتھ اثراتی تعلق، ہواؤں اور بادلوں کی ذمہ داریاں، زلزلے کے پس پردہ حکمتیں، زیر زمین اور زمین کے اندر موجود پوشیدہ خزانے، معدنیات و قدرتی وسائل، حیاتیاتی نظام، انسانی کی خلقت، انسانی اندرونی اور بیرونی اعضاء کے افعال، روح اور جسم کا تعلق، شکم مادر میں انسانی تخلیق کے مراحل، حواس اور تنفس کا نظام، حیوانات کی مختلف اقسام اور ان کی عادات و معمولات، مختلف پودوں، پھلوں، سبزیوں، درختوں کا نظام زوجیت اور ان کے زیر زمین و بالائے زمین کردار، پہاڑوں کی خلقت کی وجوہات اور ان کی ضرورت و اہمیت، ایٹم اور اس سے مربوط سارا ایٹمی نظام، آگ، مادہ اور توانائی کی حقیقت، سمندروں کے اندر پانی اور مخلوق کا تذکرہ اور سمندروں کے فوائد و کردار، سیلاب اور سونامی کی وجوہات اور فوائد و نقصانات، طب کے ذریعے انسانی جسم کے تحفظ اور اسے اندرونی و بیرونی امراض سے محفوظ رکھنے کے سلیقے، اسالیب تعلیم و تربیت اور متعدد دیگر موضوعات شامل ہیں۔ لیکن روایت پسند اہل مذہب نے اپنے آئمہ اور اسلاف کی سنت سے روگردانی کرتے ہوئے ان پر غور کرنے، ان پر پیش رفت کرنے، ان پر عملی کام کرنے اور انہی کے ذریعے ارتقاء حاصل کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی، بلکہ جن لوگوں نے قرآنی اصولوں کو سامنے رکھ کر سائنسی علوم پر کام کیا انہیں ہدف تنقید بنایا گیا۔
توقع تھی کہ ہمارے زیر بحث ورکشاپ میں سائنسدانوں کے خطابات میں قدرتی آفات بالخصوص زلزلے کے حوالے سے اہل مذہب کی آراء یا دوسرے الفاظ میں قرآنی دعووں کے خلاف باتیں ہوں گی، لیکن ہمیں بہت خوشگوار حیرت ہوئی کہ زمین کی خلقت، زیر زمین حالات، بالائے زمین کیفیات، زلزلے کی عملی کیفیت، پہاڑوں کا زمین پر قیام، سمندر کے اندر ہونے والا تغیر و تبدل، چاند اور سورج کے زمینی حالات پر اثرات اور اس جیسے کئی موضوعات پر مذہب اور سائنس بالخصوص قرآن اور سائنس کے درمیان بے انتہا مطابقت پائی جاتی ہے۔ قرآن کریم کا مزاج ہے کہ اس میں تفصیلات کی بجائے اصول بیان کر دیئے گئے ہیں، جنہیں سامنے رکھ کر قیامت تک ہر دور میں آنے والے چیلنجز اور سامنے آنے والے سوالات کے جوابات تلاش کئے جاتے ہیں، قرآن کریم نے ان موضوعات کے حوالے سے چودہ سوسال پہلے جو اصول بیان کر دیئے تھے، اس کی تائید و تصدیق گذشتہ چودہ سو سال سے ہونے والی سائنسی تحقیق بھی کر رہی ہے اور تاقیامت جتنی بھی تحقیق ہوگی، اس کا سرا یا بنیاد قرآن کریم سے ضرور ملتا رہے گا۔ لہذا اہل مذہب کو سائنسدانوں اور ماہرین سائنس کی باتوں پر غور کرنا چاہیے، انہیں مثبت انداز میں لینا چاہیے، انہیں خالصتاً علمی، فنی، سائنسی اور انسانی ضرورت کی بنیادوں پر دیکھنا چاہیے، جبکہ اہل سائنس بالخصوص پاکستانی ماہرین سائنس کے لئے لازم ہے کہ وہ بھی سائنسی تحقیقات اور سائنس کی تاریخ بیان کرتے وقت اور اپنے قلمی شاہکار مرتب کرتے وقت ایسے بانی سائنسدانوں کا ذکر ضرور کریں، جن کا بنیادی تعلق مذہب یا اہل مذہب سے ہے۔ اس رویے سے اعتدال پیدا ہوگا اور اہل مذہب اور اہل سائنس کے درمیان موجود دوری کو قربت میں تبدیل کرنا آسان ہوگا۔
اس سائنسی محفل کے بہت سارے فوائد میں سے دو بڑے اور بنیادی فوائد حاصل ہوئے، جنہیں ہمارے انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی فوائد کی حیثیت حاصل ہے، جس کا معاشرے کے ہر فرد سے تعلق ہے، پہلا فائدہ یہ کہ سائنسی تحقیقات اور زلزلے کے حقائق کے بارے میں متعدد وضاحتیں ہونے کے بعد متعدد غلط فہمیوں کا ازالہ ہوا کہ جیسے پانی کا رخ متعین کرکے پانی کے ذخائر جمع کرنا، یعنی ڈیموں کی تعمیر اور پانی کی صحیح استعمال کے ذریعے سیلاب کا تدارک ممکن ہے، ویسے ہی زلزلے سے قبل زلزلے سے ممکنہ آگاہی، زلزلے سے قبل عمارات کی معیاری اور مبنی بر اصول تعمیرات، زلزلے کے دوران احتیاطی تدابیر، زلزلے کے بعد کم سے کم نقصان کا سامنا اور آخر میں زلزلے کے بعد دوبارہ زندگی بحال کرنے کے لئے مدد، معاونت اور ریلیف کے امور کو خوش اسلوبی سے انجام دینا بھی ممکن ہے، لیکن شرط وہی ہے کہ ماہرین کی باتوں کو حکومتی اور عوامی سطح پر سنجیدگی سے لیا جائے۔ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ جہاں حکومتی اداروں کی کارکردگی معلوم ہوئی، وہاں بہت ساری مجبوریاں اور پریشانیاں بھی سامنے آئیں۔
بریگیڈیئر ساجد نعیم نے کھلے دل و دماغ سے این ڈی ایم اے کا ڈھانچہ مرکز سے ضلع اور لوکل سطح تک بتایا۔ جس میں این ڈی ایم سی اور این ڈی ایم سی ایس کی شراکت اور ذمہ داریاں بھی بتائیں۔ بیرونی دنیا کی طرف سے ملنے والی امداد اور اس امداد کے حوالے سے پھیلائے جانے والے مثبت اور منفی پروپیگنڈے کی حقیقت سامنے رکھی۔ عوام الناس کے اذہان میں یہ بات راسخ ہے کہ بیرونی ممالک سے ڈالر، پونڈ اور ریالوں کی شکل میں آنے والے امداد کے جہازوں کو حکومتی اور انتظامی ذمہ داران ہڑپ کر جاتے ہیں، لیکن تصویر کے دوسرے رُخ میں یہ دردناک بات موجود ہے کہ پاکستان کے دوست ممالک حتٰی کہ قریبی ترین مسلم اور بظاہر محسن شمار کئے جانے والے دوست ممالک امداد بھجوا کر بہت مشہوری کرتے ہیں، عوام الناس کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ فلاں فلاں دوست ملک نے دل کھول کر مدد کی ہے اور پاکستانی متاثرین کو موت کے منہ سے نکال لیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہوتی ہے کہ انہی دوست ممالک کے جہازوں میں پرانے کپڑے اور وردیاں ہوتی ہیں۔ بعض جہازوں میں صرف کھجوریں ہوتی ہیں۔ بعض جہازوں میں صرف چائے کی پتی ہوتی ہے اور بعض جہازوں میں پینے کا پانی (منرل واٹر) ہوتا ہے۔ ایسے حساس موقع پر باہمی تعلقات خراب ہونے کے خدشات کے سبب حکومت پاکستان امداد کی تردید بھی نہیں کرسکتی اور پہنچی ہوئی امداد کو تقسیم بھی نہیں کر سکتی اور وصول کی گئی امداد کو شکریے کے ساتھ واپش بھی نہیں کر سکتی۔
اسی طرح ہمیں اس پرانے کرب کا ایک بار پھر احساس ہوا کہ پچھلی کئی دہائیوں سے پاکستان کو سیلاب آنے اور پانی کے صحیح استعمال نہ ہونے کے نقصانات کا باعث وہی روایتی سیاسی پالیسیاں اور صوبائی و لسانی تعصب ہے۔ ہم نے 2005ء کے تاریخی زلزلے اور کئی سالوں سے مسلسل سیلاب آنے کے نتیجے میں ہونے والی مسلسل تباہی اور ہزاروں پاکستانی بھائیوں کی موت اور ہر سال اربوں ڈالر کے معاشی نقصان کے باوجود اپنی لسانی اور صوبائی ہٹ دھرمی سے ہاتھ نہیں کھینچا۔ ہم آج بھی ڈیموں کے نام پر سیاست چمکانے میں مصروف ہیں اور کٹ مرنے پر تیار ہیں، لیکن ڈیم بنانے اور پانی کے ذخائر جمع کرکے اس سے صحیح استفادہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ہم اپنے مسائل کے حل کے لئے خود کفالت کا محض خواب دیکھ رہے ہیں، لیکن جب بھی کوئی بیرونی ہمدرد اپنی جیب سے خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے اور اس پر کام کرنے کا آغاز کرتا ہے تو ہم دہشت گردی کی مختلف اقسام سے اُسے باہر بھگا دیتے ہیں۔ اس کی مثال چند سال پہلے ہالینڈ کی ٹیم کی آمد اور پھر دہشت گردی سے ڈر کر واپس بھاگنا ہے۔
ایک اور حقیقت بھی عوام کو حکومت (چاہے وہ کسی بھی جماعت کی ہو) سے متنفر کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ قدرتی آفات کے تدارک اور مقابلے کے لئے قبل از وقت اقدامات اور منصوبہ بندی کے لئے سیاست دان سنجیدہ ہی نہیں۔ قدرتی آفات سے مربوط ادارے جب بھی حکومتی سربراہان اور ذمہ داران یا کمیٹی و کمیشن کو متوجہ کرتے ہیں، وہ ان معاملات کو ہرگز اہمیت نہیں دیتے بلکہ مسلسل ٹالتے رہتے ہیں اور دیگر معاملات کو ترجیح پر رکھتے ہیں، حتٰی کہ اگلے سال پھر کوئی سیلاب یا زلزلہ آجاتا اور یہی لوگ قوم سے، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے اور دوست ممالک سے خیرات کی اپیل کر رہے ہوتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قدرتی آفات کو ایک مستقل عنوان کے تحت دیکھا جائے گا۔ اس میں مستقل اور مسلسل کام کے لئے ترجیحات کا تعین کیا جائے۔ دیگر سیاسی فضولیات کی بجائے اس انسانی ضرورت کو سر فہرست رکھا جائے۔ جس طرح دہشت گردی سے بچاو کے لئے سر دھڑ کی بازی لگائی جاتی ہے، اس سے کہیں زیادہ سردھڑ کی بازی قدرتی آفات کے معاملے میں لگائی جائے۔
جس کی ابتداء ماہرین کی آراء کی روشنی میں نچلی سطح تک عوام الناس کو قدرتی آفات کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے سے کی جاسکتی ہے اور نصاب تعلیم میں جماعت اول سے لے کر پی ایچ ڈی لیول تک نصاب میں اس موضوع پر ایک سے زیادہ اسباق شامل کئے جائیں بلکہ جس طرح پولیو، ڈینگی، سگریٹ نوشی اور حکومتی کارکردگی کے بیان کے لئے مسلسل تشہیری مہم چلائی جاتی ہے، اسی طرز پر قدرتی آفات سے آگاہی اور تدابیر اختیار کرنے کے بارے میں مستقل اور مسلسل مہم چلائی جائے۔ میڈیا کو پابند کیا جائے کہ شوبز کی شبانہ روز مصروفیات سے کچھ وقت نکال کر اور اداکاراؤں کی براہ راست کوریج سے چند لمحات بچا کر بے چارے سائنسدانوں کو عطیہ کریں اور اس عطیہ کردہ وقت میں سائنسی تحقیقات کے بیان اور قدرتی آفات کے حوالے سے اپنے اپنے ذرائع ابلاغ پر مستقل وقت مخصوص کرکے مستقل پروگرام شامل کریں۔ ایک ملک گیر مہم، ایک مستقل منصوبہ بندی اور سنجیدہ اجتماعی جدوجہد سے ہم اس چیلنج سے نبرد آزما ہوسکتے ہیں، ورنہ سیلاب اور زلزلے میں ہر سال مر جانا تو ہمارے مقدر میں لکھا ہی ہے نہ۔؟؟؟ /۹۸۸/ ن۹۴۰