رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ڈیرہ اسماعیل خان انتظامیہ نے ٹارگٹ کلنگ کے خلاف احتجاج کرنے کی پاداش میں علماء سمیت 121 افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ مقدمہ ایک ماہ بعد درج کیا گیا ہے۔ 26 فروری 2017 کو ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل پروا کے علاقے گھونسر میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے ثقلین عباس، علی رضا اور جمیل نامی نوجوان شہید کر دیا۔ جس پر شہداء کے لواحقین نے میتیں اُٹھا کر انڈس ہائی وے مکمل بلاک کر کے دھرنا دیا۔ جس پر ڈی پی او یاسر خان آفریدی بمعہ ڈپٹی کمشنر متصم بااللہ دھرنے کے شرکاء سے مذاکرات کرنے گئے۔ لواحقین نے علامہ رمضان توقیر کی سربراہی میں 5 رکنی کمیٹی بنائی۔ جس سے انتظامیہ کے کامیاب مذاکرات ہوئے اور انتظامیہ نے دھرنے کے شرکاء کے تمام مطالبات مان لئے۔جس پر دھرنا پُرامن طور پر ختم کر دیا اور انڈس ہائی وے پر ٹریفک بحال ہوئی۔
انتظامیہ نے وعدے کے مطابق چند دن بعد فائرنگ کرنے والے نامزد ملزمان کو بھی گرفتار کرلیا تھا، کہ جن کا تعلق ایک کالعدم جماعت سے ہے۔ اہلیان ڈیرہ پولیس کی کارکردگی پر بےحد خوش ہوئے اور ڈی پی او یاسر خان آفریدی کی کارکردگی کو سراہا تھا۔ ایک ماہ بعد 29 مارچ 2017 کو 26 فروری 2017 کو دئیے جانے والے دھرنے کی پاداش میں تھانہ پروآ میں ایس ایچ او منہاج سکندر بلوچ نےتہرے قتل کے واقعے کے بعد گھونسر مائینر ہائیوے کو احتجاجاًمطالبات کی منظوری کے لئے بند کرنے کے خلاف علامہ رمضان توقیر سمیت 121 افراد کے خلاف 34- 153A, 186- 3MPO -147 - 149PPC کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔ ایم ڈبلیو ایم کے راہنماء کے مطابق اس ایف آئی آر میں زیادہ تر بزرگوں کو شامل کیا گیا ہے۔/۹۸۸/ ن۹۴۰