رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حوزہ علمیہ قم میں درس خارج کے مشہور و معروف استاد حضرت آیت الله عبدالله جوادی آملی نے ایران کے مقدس شہر قم کے مسجد اعظم میں منعقدہ اپنے تفسیر کے درس میں سورہ مبارکہ قمر کی آیات کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہا : سورہ مبارکہ قمر مکمہ میں نازل ہوا اور اس کے بنیادی عناصر اصول دین اور کلی مطالب اخلاق و فقہ ہے ۔
انہوں نے وضاحت کی : جن لوگوں نے الہی راستہ طے کیا وہ مقصد تک پہوچ گئے ہیں نہ انہوں نے غلط راستہ کو اختیار کیا اور نہ ہی کسی کا راستہ بند کیا ہے ، جن لوگوں نے انبیاء کی باتوں اور ان کے فرمائش پر عمل نہیں کیا وہ گمراہ ہو گئے اور انبیاء کے باتوں پر عمل نہیں کرنے کی وجہ سے انہوں نے نقصان اٹھایا ہے ۔
انہوں نے آیت « وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُونًا فَالْتَقَى الْمَاءُ عَلَىٰ أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ» کی تلاوت کرتے ہوئے حضرت نوح علیہ السلام کے واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا : زمین سے ابلتے پانی پھوٹ پڑے اور آسمان سے پانی کا نہر جاری ہو گیا اور زمین اور آسمان کی طرف سے وجود میں آئے یہ دونوں پانی آپس میں مل گئے جو الہی عذاب تھا ، کچھ وقت بھی نہ گذرا اور حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی نے حرکت کی اور زمین سے پانی سطح زمین پر بلند ہونے لگی اور حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی اوپر اور نیچے سے محفوط تھی ۔
قرآن کریم کے مشہور و معروف مفسر نے وضاحت کی : خداوند عالم فرماتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے واقعہ میں تمام امور ہمارے زیر نظر انجام پائے اور مدبرات امر ہمارے کام کو انجام دے رہے تھے ، کشتی کے بنانے سے لے کر اور یہ کہ کشتی کے نیچے سے پانی کشتی کو بلندی کی طرف لے جائے اور اوپر اور نیچے سے کشتی محفوظ رہے اور کشتی میں ہر طرح کے حیوان ہوں اور کشتی کو نقصان نہ پہوچے ، فرمایا ہم ان تمام امور پر نظر رکھے ہوئے تھے « تَجْرِي بِأَعْيُنِنَا جَزَاءً لِّمَن كَانَ كُفِرَ» ۔
حضرت آیتالله جوادی آملی نے آیت «وَلَقَد تَّرَكْنَاهَا آيَةً فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ» کی تلاوت کرتے ہوئے بیان کیا : اگر کوئی چیز خداوند عالم سے خصوصی نسبت پاتا ہے تو اگر کوئی ابرہہ کی طرف کعبہ کی طرف جاتا ہے تو اس کے پیچھے ابابیل آتا ہے ، یا قوم ثمود کے طرح اس کے لئے ناقہ آتا ہے ، اور وہ عذاب میں مبتلی ہو جاتا ہے، اگر کوئی پیغمبر کو پریشان کرتا ہے تو اس کو سزا ملتی ہے ، فرمایا کہ وہ میرے بندے پر ظلم و ستم کرتا ہے تو ہم بھی اس پر عذاب کرتے ہیں ، صحیح ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نبی اللہ و رسول اللہ تھے لیکن قرآن کی تاکید ان کے بندہ ہونے پر ہے اور بیان ہوتا ہے کیونکہ اس نے میرے بندے کو رنجیدہ کیا ہے اس کا انتقام ہم لینگے ، یہ خطرہ ہم سب لوگوں کو متنبہ کرتا ہے ۔
انہوں نے اپنی گفت و گو جاری رکھتے ہوئے بیان کیا : اگر کوئی شخص کسی مومن کا دل آزاری کرتا ہے تو وہ عذاب الہی میں مبتلی ہوگا جس کا معیار عبودیت ہے ، خداوند عالم نے یہ نہیں فرمایا کہ میرے رسول کو رنجیدہ نہ کرو بلکہ فرمایا کیونکہ میرے بندے کو رنجدہ کیا ہے تو میں نے اس سے انتقام لیا ہے ، ہم لوگوں کو ہوشیار رہنا چاہیئے کہ کسی کی آبروریزی نہ کریں کسی کے دل کو نہ دکھائیں ، اگر کسی بندے کے پاس خدا کے علاوہ کوئی نہیں ہے اور وہ خدا سے طلب کرتا ہے تو خدا فورا اس کی دعا کو قبول کرتا ہے ۔/۹۸۹/ف۹۳۰/ک۶۸۹/