رسا نیوز ایجنسی کے اصفہان رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حوزہ علمیہ اصفہان کے سربراہ حضرت آیت الله حسین مظاہری نے مسجد امیر المومنین (ع) میں منعقدہ قرآن کریم کے تفسیر کے جلسہ میں کہا : قرآن کریم میں جو دعائیں بیان ہوئی ہیں اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنا چاہیئے ۔
انہوں نے اپنی گفت و گو کے سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے سورہ مبارکہ بقرہ کی ایک سو انتیسویں آیت کہ جس میں فرمایا «وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِیمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُمْ بِاللَّهِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ قَالَ وَمَنْ کَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِیلا ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِیرُ» کی تلاوت کرتے ہوئے وضاحت کی : حضرت ابراہیم علیہ السلام خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت اپنے بیٹے حضرت اسماعیل (ع) کے ساتھ خداوند عالم کی بارگاہ میں دعا کی تھی جو بہت سبق آموز ہے اور ہم لوگوں کو بھی چاہیئے کہ ان کے رفتار و گفتار سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کریں ۔
حضرت آیت الله مظاهری نے بیان کیا : امام جعفر صادق (ع) ایک رویات میں فرماتے ہیں کہ جب بھی اپنے والد کی طرف نگاہ کرتے تھے دیکھتے تھے کہ ذکر میں مشغول ہیں ؛ مرحوم کمپانی جو کہ اصفہان کے ایک بزرگ مرجع تقلید تھے ان کے ایک شاگرد بیان کر رہے تھے کہ آیت الله کمپانی اپنے گھر پر ہر ہفتہ مجلس رکھتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ چائے اپنے ہاتھ سے تیار کریں ، ایک روز میں نے دیکھا کہ وہ چائے نکالنے کے وقت ذکر میں مشغول تھے کچھ روز کے بعد معلوم ہوا کہ انہوں نے ہر روز ہزار بار سورہ قدر پڑھنے کی نذر کی تھی ۔
حوزہ علمیہ اصفہان کے سربراہ نے اپنی گفت و گو کو جاری رکھتے ہوئے کہا : حضرت ابراہیم (ع) خانہ کعبہ کی تعمیر کے ساتھ ساتھ مسلسل ذکر پڑھنے میں مشغول رہتے تھے ؛ حضرت ابراہیم (ع) اپنی دعا میں خداوند عالم کو خطاب کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں ، اے خداوند عالم یہ عمل یعنی خانہ کعبہ کی تعمیر ہم سے قبول کر ، اس کے بعد عرض کیا کوئی چیز یا کسی کو اس کام میں ہمارے لئے شریک قرار ندو یعنی ہم نے خلوص کے ساتھ صرف تمہارے لئے اپنے کاموں کو انجام دیا ہے کیوںکہ سب کام اس وقت بہ خیر پر انجام پاتا ہے کہ خداوند عالم کے خلوص کے لئے ہو ۔
حوزہ علمیہ میں اخلاق کے استاد نے تاکید کی : انسان جب کسی کو بہت پسند کرتا ہے دوست رکھتا ہے اس وقت اس سے کلام میں صرف اس کی طرف توجہ رہتا ہے ؛ حضرت ابراہیم (ع) اپنے دعا میں عرض کی اے خدا مجھ کو مستقیم راستہ پر قرار دے ؛ جو انسان سیدھے راستے سے ذرہ سا بھی منحرف ہو جاتا ہے تب جتنا بھی آگے جائے گا بیشتر منحرف ہوگا یہاں تک کہ غلطیوں میں گرفتار ہو جاتا ہے ۔
انہوں نے بیان کیا : حضرت ابراہیم (ع) اپنے دعا کو جاری رکھتے ہوئے خداوند عالم سے دوخواست کرتے ہیں کہ ان کا عقل و دل اوامر الہی کے تابع ہو کیوںکہ سیدھے راستہ پر ہونے کا شرط الہی اوامر پر بغیر چون و چرا کئے اطاعت کرنا ہے ۔
حضرت آیت الله مظاهری نے اس بیان کے ساتھ کہ پیغمبری کی شرط گناہ سے عصمت ہے بیان کیا : انبیاء الہی احکام پر مسلط رہے ہیں اور گناہ و معصیت خداوند ان کے رویہ میں نہیں پایا جاتا ہے ، حضرت ابراہیم (ع) اپنی دعا میں عرض کرتے ہیں خدایا ہمارے توبہ کو قبول کر ، یہ مسئلہ شیعوں کے عقیدے سے مطابقت نہیں رکھتی مگر یہ کہ اس کی تفسیر کروں ۔
حوزہ علمیہ اصفہان کے سربراہ نے وضاحت کی : کتاب شریف مفاتیح الجنان میں موجود دعا میں اہل بیت (ع) سے نہایت بے نظیر جملات موجود ہیں کہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے رویہ پر توبہ کرتے تھے ، مرحوم حاجی سبزواری جو کہ بزرگ و معروف عرفا میں سے تھے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں توبہ کا بھی تقوا کی طرح تین مرحلہ پایا جاتا ہے ۔
حوزہ علمیہ میں اخلاق کے استاد نے اپنی گفت و گو کو جاری رکھتے ہوئے بیان کیا : وہ توبہ جو عام لوگوں سے مخصوص ہے وہ گناہ و الہی حرام چیزوں سے ہے اور قرآن کریم عام لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرما رہا ہے « قُلْ مَنْ حَرَّمَ زينَةَ اللَّهِ الَّتي أَخْرَجَ لِعِبادِهِ وَ الطَّيِّباتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ هِيَ لِلَّذينَ آمَنُوا فِي الْحَياةِ الدُّنْيا خالِصَةً يَوْمَ الْقِيامَةِ کَذلِکَ نُفَصِّلُ الْآياتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ» یعنی دنیا کے حلال چیزوں سے استفادہ کرو لیکن حرام چیزوں کو ترک کرو ؛ توبہ کا اعلی مرتبہ جو انبیاء و اولیا جو چودہ معصومین علیہم السلام کے علاوہ ہیں ، توبہ حلال چیزوں کے استفادہ میں ہے ؛ حضرت ابراہیم (ع) اس وجہ سے کہ شاید حلال چیزوں کے استفادہ میں زیادہ روی نہ کر لی ہو توبہ کر رہے ہیں ۔/۹۸۹/ف۹۳۰/ک۸۷۵/