تحریر: ثاقب اکبر
رسا نیوز ایجنسی، دنیا کے اجتماعی ضمیر نے بارہا انتہا پسندی کو ٹھکرایا اور آج پھر ایک مرتبہ ٹھکرا دیا ہے۔ صدر اسلام میں خارجیت انتہا پسندی کی ایک شکل تھی۔ خوارج اپنے علاوہ سب مسلمانوں کو کافر قرار دیتے تھے۔ پھر جنھیں وہ کافر کہتے ان کے قتل کے بھی درپے ہوجاتے۔ ایک مرتبہ انھوں نے بڑی طاقت بھی جمع کرلی، لیکن آخر کار وہ شکست کھا گئے۔ امت نے اجتماعی طور پر ان کا نام ’’خوارج‘‘ رکھ دیا۔ وہ باہر والے ہوگئے۔ ان کی جماعت باہر والی قرار پائی یعنی امت کے اجتماع کا حصہ نہ رہی۔ پھر لفظاً تو ’’خوارج‘‘ ختم ہوگئے لیکن ان کی فکر کبھی کبھی مختلف شکلوں اور ناموں سے سامنے آتی رہی۔ اب خوارج کو ان کی فکر، ذہنیت، طرز عمل اور شعار سے پہچاننے کی ضرورت ہے۔ آج کی خارجیت نے پورے عالم اسلام میں فتنہ برپا کر رکھا ہے۔ آج کی خارجیت زیادہ خطرناک ہے، اس لئے کہ صدر اسلام کی خارجیت کے پیچھے کوئی اور طاقت اور بیرونی قوت کارفرما نہ تھی۔ اس دور کے خوارج خود ہی گمراہی اور انتہا پسندی میں مبتلا ہوگئے تھے، لیکن آج کی خارجیت اپنی تمام شکلوں میں عالمی استعماری طاقتوں اور ان کے اتحادیوں کی آلۂ کار ہے۔ آج کی خارجیت استعماری طاقتوں کے مقاصد کی تکمیل اور اپنے شدت پسندانہ ایجنڈے کے مابین اشتراک عمل کے قاعدے پر عمل پیرا ہے۔
ایک طرف سرمایہ داری ہے، جس کا اسلحہ شدت پسندی اور فساد کے بڑھنے سے بکتا ہے۔ دوسری طرف صہیونیت ہے، جس کا ایجنڈا مسلمان حکومتوں اور معاشروں کے کمزور ہونے سے پورا ہوتا ہے اور تیسری طرف برہمنیت ہے، جس کے خون آشام شکنجے خاک اڑنے اور خون برسنے سے سخت ہوتے چلے جاتے ہیں۔ عضر حاضر کی خارجیت آزاد اور گمراہ ذہن نے میدان میں نہیں اتاری بلکہ شدت پسندانہ ذہنیت نے مذکورہ ناپاک اور ستمگر تثلیث کے نجس مقاصد سے تقویت حاصل کی ہے۔ البتہ اس میں شک نہیں کہ عالم اسلام میں شدت پسندی اور انتہا پسندی کی مختلف شکلیں ہوں یا اسلام اور عالم اسلام سے باہر اس کی مختلف حالتیں، شکست بالآخر اس کے مقدر میں ہے۔ کمیونزم کو اسٹالن جیسوں نے تباہی کے راستے پر ڈالا۔ کلیسا کا زوال پاپائیت کے استبداد کا نتیجہ قرار پایا اور کمزور ہندو قوموں کی اسلام جیسے انسانی مساوات کے علم بردار نظریئے کی طرف رغبت برہمن تنگ نظری کے باعث سامنے آئی۔
عملی طور پر آج کے مسلمان معاشرے نے بھی انتہا پسندی کو مسترد کر دیا ہے۔ راقم کی رائے میں اس کا دور مختصر رہ گیا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب آگ ان کے گھروں تک جانے لگی ہے، جنھوں نے اسے بھڑکایا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ضروری نہیں کہ آگ ہمیشہ بھڑکانے والوں کے قابو میں رہے۔ وہ جب آپے سے باہر ہو جاتی ہے تو پھر ہوا دینے والوں کے دامن بھی اس سے محفوظ نہیں رہتے۔ یہی نہیں اس آگ نے کاغذی کرنسی کو بھی بڑے پیمانے پر پھونک ڈالا ہے۔ جنھیں زعم تھا کہ ان کے پاس بے پناہ دولت ہے اور وہ اپنی دولت کے بل بوتے پر دوسروں کے گھر جلانے کے لئے ایندھن فراہم کرتے رہے۔ انھوں نے کاغذی کرنسی کے بڑے بڑے انبار اس میں جھونک دیئے۔ اب جب وہ پلٹ کے دیکھتے ہیں تو صورت حال بدل چکی ہے۔ بہرحال انتہا پسندی اپنی انتہا کو پہنچتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔
پاکستان جیسے معاشرے میں انتہا پسندی نے کسی اور طرح سے ہزیمتیں اٹھائی ہیں۔ بالآخر ہماری ریاستی قوت انتہا پسندی کے شدید نقصانات کا احساس کرکے روبہ عمل آچکی ہے۔ جی ایچ کیو، کامرہ اور مہران ایئربیس پر دہشت گردوں کے حملے ریاستی طاقت کو ہلا دینے کے لئے کافی تھے، لیکن پھر بھی کچھ مزید تجربوں سے گزرنا پڑا۔ اب ریاستی طاقت روبہ عمل تو ہے لیکن ابھی اس عمل میں جامعیت اور ہمہ گیریت دکھائی نہیں دیتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مزید تجربات نہ کئے جائیں اور ماضی کے غم ناک تجربوں کو کافی سمجھا جائے، جس کے منہ کو خون لگ جائے، وہ پھر اپنی پیاس بجھانے کے لئے کسی کا بھی خون پی سکتا ہے۔ ہمارے ہاں صرف ریاستی طاقتیں شدت پسندی کے خلاف نبرد آزمائی کے فیصلے تک نہیں پہنچیں۔ ہماری سول سوسائٹی نے بھی انتہا پسندی کو حقارت سے ٹھکرا دیا ہے۔ انتہا پسندوں کو ویسے تو مجموعی طور پر پاکستانی عوام نے قبول نہیں کیا، لیکن وہ لوگ جو خوف کے باعث ان انتہا پسندوں کے خلاف نہیں بولتے تھے، انھوں نے بھی خوف کی چادر اتار دی ہے اور وہ بھی کھل کر اب عصر حاضر کی خارجیت کے خلاف نعرۂ مستانہ بلند کر رہے ہیں۔
پاکستان میں خاص طور پر تکفیریت کی حالت دیدنی اور عبرت آموز ہے۔ تمام مذہبی جماعتیں اور قوتیں ایک پیج پر ہیں۔ بریلوی، دیوبندی، شیعہ اور اہل حدیث جماعتیں اس ملک میں اسلامی اقدار کے تحفظ کے لئے زیادہ واضح طور پر اکٹھی ہوچکی ہیں۔ سب مذہبی قائدین ہاتھوں میں ہاتھ دے کر اتحاد امت کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور مخالفین پر کفر و شرک کے نشتر برسانے والے عقب نشینی اختیار کرچکے ہیں۔ وہ امت کے وسیع دھارے سے الگ دکھائی دیتے ہیں۔ ہم انحرافی اور کج فکر کے حامی انتہا پسندوں سے گزارش کریں گے کہ وہ توبہ کا راستہ اختیار کریں۔ انتہا پسندی کو بالآخر شکست سے دوچار ہونا تھا اور ہونا ہے۔ ضروری ہے کہ ہر مسلک میں گھس بیٹھئے انتہا پسند توبہ کا راستہ اختیار کریں۔ ان انتہا پسندوں کو چونکہ کھلے بندوں اب سامنے آنے کا یارا نہیں رہا، اس لئے اب یہ سوشل میڈیا پر بیٹھے طوفان بدتمیزی اٹھا رہے ہیں۔ ایک دن ضرور آئے گا جب سول سوسائٹی اور باشعور مذہبی قیادت حکومت سے پوری قوت سے مطالبہ کرے گی کہ سوشل میڈیا پر نفرتوں کا کاروبار کرنے والے عناصر کے خلاف بھرپور اقدام کرے۔ باہمی افتراق ریاست کو بھی کمزور کرتا ہے۔ لہٰذا ریاستی ادارے بھی ایک روز ان انتہا پسندوں پر بھرپور وار کریں گے۔ اس لئے ان کیلئے بہتر یہی ہے کہ توبہ کریں اور اصلاح و فلاح کا راستہ اختیار کریں۔