رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی شھر اصفھان سے رپورٹ کے مطابق، حوزه علمیہ اصفهان کے سربراہ حضرت آیت الله حسین مظاهری نے اپنی تفسیر قران کریم کی نشست میں جو مسجد امیرالمؤمنین(ع) جی روڈ اصفھان میں کثیر نماز گزار مومنین کی شرکت میں منعقد ہوئی کہا: مرد و زن کی خلوت ناجائز ہے ۔
انہوں نے سوره بقره کی ۱۸۷ ویں آیت «أُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَةَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِکُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَکُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَعَفَا عَنْکُمْ فَالآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا کَتَبَ اللَّهُ لَکُمْ وَکُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الأبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الأسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّیَامَ إِلَى اللَّیْلِ وَلا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاکِفُونَ فِی الْمَسَاجِدِ تِلْکَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَقْرَبُوهَا کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللَّهُ آیَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُونَ ۔ ترجمہ : اور روزوں کی راتوںمیں اپنی بیویوں کے پاس جانا تمہارے لیے حلال کر دیا گیا ہے، وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو، اللہ نے دیکھا کہ تم اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے پس اللہ نے تم پر عنایت کی اور تم سے در گزر فرمایا، پس اب تم اپنی بیویوں سے مباشرت کرو اور اللہ نے جو تمہارے لیے مقرر فرمایا ہے اسے تلاش کرو اور (راتوں کو) خوردو نوش کرو، یہاں تک کہ تم پرفجر کی سفید دھاری (رات کی) سیاہ دھاری سے نمایاں ہو جائے، پھر رات تک روزے کو پورا کرو اور جب تم مساجد میں اعتکاف کی حالت میں ہو تو اپنی بیویوں سے مباشرت نہ کرو، یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں، ان کے قریب نہ جاؤ، اس طرح اللہ اپنی آیات لوگوں کے لیے بیان کرتا ہے تاکہ وہ تقویٰ اختیار کریں ۔» کی تفسیر میں کہا : خداوند متعال نے اس آیت شریفہ میں مختلف و متعدد احکام بیان کئے ہیں نیز مختلف اخلاقی نکات بھی اس آیت میں موجود ہیں ۔
حضرت آیت الله مظاهری نے بیان کیا: صدر اسلام میں حالات کچھ اس طرح تھے ماہ مبارک رمضان میں میاں بیوی کو مقاربت سے دور رکھا گیا تھا اور مسلمان افطار یا سحر میں سے کسی ایک وقت ہی کھا سکتے تھے ، مسلمان رسول اسلام (ص) کی پیروی میں شب زندہ داری کیا کرتے تھے ۔
حوزه علمیہ اصفهان کے سربراہ نے مزید کہا: ان دونوں چیزوں کا اکٹھا کرنا مسلمانوں کے لئے بہت سخت تھا ، گرم ہوا اور ایک وقت کے کھانے کے ساتھ کام کرنا ان کے لئے نہایت دشوار تھا ، دوسری جانب جوان جوڑوں کے لئے ایک ماہ تک بیوی سے دوری مشکل کام تھا اسی بنیاد پر بعض افراد مقاربت کرکے گناہ کا مرتکب ہوجایا کرتے تھے ، لہذا خداوند متعال نے مسلمانوں پر یہ لطف و کرم کیا اور ان دونوں باتوں کو ان سے اٹھا لیا ۔
انہوں نے مزید بیان کیا: رَفَث کے معنی تحریک آمیز گفتگو کے ہیں ، اس آیت اور اس آیت کے ذیل میں موجود روایت سے یہ نتیجہ ملتا ہے کہ نامحرم مرد و زن اپنی گفتگو اور اپنے عمل میں بہت محتاط رہیں ، ہرگز ایک دوسرے کی تحریک کا سبب نہ بنیں ، حتی مرد و زن کے کپڑے بھی تحریک آمیز نہ ہوں کیوں کہ تحریک آمیز الفاظ و اعمال عظیم گناہ ہیں ۔
حوزہ علمیہ کے معلم اخلاق نے یاد دہانی کی: صدر اسلام میں لوگ ایک عورت کے ارد گرد یکجا ہوکر اس کا مزاق اڑا رہے تھے ، رسول اسلام(ص) نے لوگوں سے سوال کیا کہ کس وجہ سے اس کا مزاق اڑایا جارہا ہے تو لوگوں نے جواب دیا کہ یہ عورت پاگل ہے اور اس کا طریقہ مضحکہ خیز ہے ، رسول اسلام(ص) نے فرمایا کہ یہ عورت پاگل نہیں ہے بلکہ اس کا عمل اس کے اختیار سے باہر ہے ، پاگل وہ عورت ہے جو اپنے گفتار و کردار سے نامحرم مردوں کو تحریک کرے ۔
انہوں نے یقین دہانی کی: اگر چلنے کا طریقہ بھی تحریک آمیز ہو تو وہ بھی حرام عمل ہے چہ جائی کہ نامحرم مرد و زن ایک کمرے میں تنہا ہوں یا بغیر پردے کے سماج میں جائیں ، نامحرم کے ساتھ تنہائی کی ممانعت کی گئی ہے کیوں کہ اس حالت میں تیسرا وجود بھی حاضر ہوجاتا ہے اور وہ شیطان ہے ، قران کریم نے بیان کیا کہ زلیخا ، حضرت یوسف (ع) پر عاشق ہوگئیں اور اگر حضرت یوسف (ع) کی عصمت نہ ہوتی تو وہ بھی زلیخا کی خواہشات کی جانب کھنچ جاتے ۔
حوزه علمیہ اصفهان کے سربراہ نے کہا: معاشرہ کی موجودہ اخلاقی مشکلات مرد و زن کے میکس نشستوں اور جلسات کا نتیجہ ہے ، ان میکس نشستوں سے عورت کی عفت اور مرد کی غیرت متاثر ہوتی ہے لہذا عورت پوری سنجیدگی اور غرور کے ساتھ نامحرم مرد سے باتیں کریں وگرنہ مرد تحریک ہوگا کہ ایسی حالت میں خداوند متعال ہم پر رحم فرمائے ۔
انہوں نے کہا: مقدس اردبیلی سے سوال کیا گیا کہ اگر آپ نامحرم عورت کے ساتھ تنہا ہوگئے تو کیا زِنٰی کر بیٹھیں گے تو انہوں نے فرمایا کہ ہرگز ، مگر ایسی حالت کے لئے خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ ہرگز ایسے حالات پیش نہ آئیں ۔
حضرت آیت الله مظاهری نے فرمایا: آفسوں کے حالات کچھ ایسے ہوگئے ہیں کہ نامحرم مرد و زن ایک بند کمرے بیٹھے رہتے ہیں ، یہ عظیم گناہ ہے ، ایسی حالت میں مرد و زن کے لئے تحریک آمیز گفتگو نہایت خطرناک ہے ۔/۹۸۸/ ن۹۷۰